جامعات کی خودانحصاری

خیبرپختونخوا کی سب سے تاریخی اور مایہ ناز مادر علمی جامعہ پشاور سمیت صوبے کی اکثر جامعات ان دنوں مالی بحران کی جس کیفیت سے گزر رہی ہیں اس پر سنجیدہ طبقات کا رنجیدہ ہونا ایک فطری امر ہے۔ویسے تو ہماراپورا تعلیمی نظام پچھلی کئی دہائیوں سے بھونچال کی زد میں ہے لیکن اعلیٰ تعلیم کے بجٹ پر جوکٹ لگائی گئی ہے اس کاواضح نتیجہ زیربحث جامعات کودرپیش سنگین مالی مسائل کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جس نے خیبر پختون خوا جیسے پسماندہ صوبے کی جامعات کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا ہے حتیٰ کہ ان میں بعض جامعات کو اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں جسکی نظیر ماضی میں ملنا مشکل ہے۔اس ضمن میں ان دنوں جو جامعہ سب سے زیادہ شدید بحران سے دوچار ہے وہ جامعہ پشاور ہے۔واضح رہے کہ پشاوریونیورسٹی کی بنیاد 1950 میں رکھی گئی تھی اور اس میں ان دنوں مختلف شعبوں میں تقریباً پندرہ ہزار طلباء وطالبات کو انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہاں چھ فیکلٹیز ہیں جن میں چالیس پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹس، متعدد کالجز اور کئی سنٹرقائم ہیں۔جامعہ پشاور میں وسیع وعریض سبزہ زاروں کے علاوہ بڑی بڑی رہائشگاہیں اورہاسٹلزموجود ہیں۔کئی ایکڑ رقبے پر پھیلی یہ خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والی پہلی یونیورسٹی ہے جوماضی قریب میں پورے صوبے کی اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مشہور تھی۔ دراصل حکومتی بے توجہی یا پھر ملکی معاشی مسائل کے تناظر میں حکومت کے جانب سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا نظر انداز کیا جانا تو پھر بھی قابل فہم ہے لیکن کیا اس حقیقت کو کوئی جھٹلا سکتا ہے کہ ان جامعات میں موجود ایسے شعبوں کے ما ہرین جن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور جو اپنے اپنے شعبوں میں طویل تجرے کے حامل ہیں نیز یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کو مختلف شعبوں میں اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین فراہم کر رہے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ماہرین اپنے اداروں کو جاری مالی بحرانوں سے نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو شاید ہمارا پیچیدہ نظام او رقواعد و ضوابط ہیں جو ان ماہرین کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں درس و تدریس کے علاوہ عملی میدان میں روبہ عمل لانے سے باز رکھتے ہیں جبکہ شاید اسکی دوسری وجہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس رجحان کا پروان نہ چڑھنا ہے کہ یہ ادارے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی مالی خودانحصاری کی جانب بھی پیش رفت کر سکتے ہیں اس ضمن میں پشاور یونیورسٹی جو ایک جنرل یو نیورسٹی ہے اور جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم موجود ہے وہ نہ صرف اپنی ان قیمتی انسانی وسائل کو اپنے مالی حالات کے سدھار میں استعمال کرسکتی ہے بلکہ اسے دیگر جامعات پر اس کے خصوصی اہمیت کے حامل محل وقوع کی وجہ سے جو انفردایت حاصل ہے وہ اسے بھی خصوصی طور پر بروئے کار لا سکتی ہے۔ مثلاً اگر جامعہ پشاور کیمپس کے اندر اور اس کے گرد ونواح میں رہائش پزیر لاکھوں آبادی پرمشتمل طلباء اور دیگر عام افراد کو ہدف بناکر بعض مخصوص مقامات پرکئی منزلہ رہائشی فلیٹس اور ہاسٹلزکی تعمیر کا منصوبہ بنائے تو اس سے ماہانہ کروڑوں روپے کی آمدن ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی طرز پر پارکنگ اور ریکریشن کی سہولیات کے حامل ایک یاایک سے زائد بڑ ے شاپنگ مال کی تعمیر اور وہاں بین اقوامی معیار کی سہولیات کی فراہمی کے ذریعے بھی آمدن کا ایک کامیاب ماڈل روبہ عمل لایا جا سکتا ہے نیز اس پرا جیکٹ میں اعلیٰ معیار کے ایک ریسٹورنٹ اور گیدرنگ ہال کی گنجائش بھی رکھی جا سکتی ہے۔اسی طرح ایبٹ آباد نتھیا گلی،مری روڈ پر باڑہ گلی میں یونیورسٹی آف پشاور کاسمرکیمپس جو نہ صرف60 ایکڑ رقبے پرمحیط ہے بلکہ یہاں موجود گھنے جنگلات، اونچے سرسبز پہاڑ اوریہاں کی خوشگوار آب و ہوا بڑے پیمانے پر سیاحوں کو یہاں کھینچنے میں مدگار ثابت ہوسکتے ہیں جس کیلئے یہاں مناسب سرمایہ کاری کر کے وہ تمام ضروری سہولیات بہم پہنچانی ہوں گی جو سیاحوں کی ضرورت ہے۔خود انحصاری کے جانب پیش رفت سے متعلق ان تجاویز میں پروڈکشن یعنی پیداوارکے بعض منصوبے بھی شامل کئے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جامعات کی حد تک یہ ٹرینڈ یا توسرے سے ہے ہی نہیں اور یا پھرچونکہ اس طرح کے منصوبوں کی کامیابی کی شرح نہ ہونے کے برابر سمجھی جاتی ہے جسکی نمایاں مثالیں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سٹیل ملز، ریلوے، واپڈا،جی ٹی ایس اور پی آئی اے جیسے خسارے کے شکار ادارے ہیں لہٰذا اس وجہ سے درج بالا سطور میں ہمارے ہاں کامیابی سے چلنے والے متذکرہ کاروباری منصوبوں کی تجاویز دی گئی ہیں۔یہاں ایک بڑا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے درکار کثیر سرمایہ کہاں سے آئے گا کیونکہ جن اداروں کے پاس اپنے ملازمین کو تنخوا دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں وہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کہاں سے کریں گے تو اس ضمن میں جہاں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جامعہ پشاور کے لاکھوں صاحب ثروت سابق طلباء ڈونیشن کی صورت میں یہ مسلۂ حل کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے قابل عمل ماڈل کو بھی بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔