شہر کی صبح 


 شہر گنجان آباد ہو چلا ہے۔ اتنا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ہو۔بندہ بندے کے ساتھ ٹکراتا ہے اور گاڑی گاڑیوں کے ساتھ۔شہریوں کو بے باک موٹر سائیکل سوار کچل رہے ہیں۔پھر خود ان کو بڑی گاڑیوں والے ٹکر مار دیتے ہیں۔ یہ زمین پربچھ جاتے ہیں۔ اس میں جلدی کا کارن ہے۔میاں بیوی تک ڈہہ جاتے ہیں۔بائیک پر صاحب جی وضع قطع سے مدبر اور ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں مگربیگم کو ساتھ بٹھائے ہو تے ہیں۔مگر اس موقع پر کہ کسی سے آگے نکلنے کی راہ نہ ہو تیر سماں چل دوڑتے کسی گاڑی سے الجھ کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ شہر کی یہ مصروف اور تنگ تنگ فضا جہاں سانس لینا بھی دشوار ہوبلکہ سزالگنے لگے۔وہاں اگر رش کا عالم نہ دیکھیں تو صبح سویرے فجر کے نصف گھنٹے بعد یا عشا ء کے دو گھنٹے بعد رات کو ملاحظہ کریں گے۔وگرنہ تو سارا دن بک بک جھک جھک اورخوب مغز کھپائی کرنا پڑتی ہے۔ جان جوکھم میں ڈالنا ہوتی ہے۔کبھی نکلو تو ٹریفک رش میں پنڈلی پر زخم لے کرگھرآؤ کبھی گرجاؤ تو ہسپتال میں ٹیکہ لگانے جاؤ۔ کیونکہ سڑک کی زمین کے جراثیم جسم میں جاکر خرابی نہ کریں۔صبح سویرے کی ہوا بہت مزہ دیتی ہے۔ کہیں واک کو نکل کھڑے ہوں تو چلتے جائیں۔ ایک گھنٹہ چلنا ہے تو گھڑی پر وقت دیکھ کر آدھے گھنٹے بعد انھیں قدموں واپس لوٹ آئیں۔ ہم بھی واک کرتے ہیں۔بائیک نکالا اور بائیک پر واک کرنے کا ڈول ڈالا۔ اس وقت فضا ٹھنڈی اورآلودگی کا نام و نشان نہیں۔ سڑک پر بندہ انسان نہیں۔اگر ہوں تو چند ہوں۔اکا دکا ہوں۔سگِ راہ حیوان جو راتوں کو جاگ جاگ کر اس وقت گھوم رہے ہوتے ہیں۔ان کا چلنا پھرنا کم کم سہی مگر اس وقت بھی دکھائی دیتے ہیں۔سڑکیں جیسے تھک ہار کر آرام کر رہی ہوں۔ ان سڑکوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اگر کانوں میں زیادہ سننے کی تاثیر ہوں۔ وہ سڑکیں جو دن بھر گاڑیوں ریڑھا گاڑیوں گدھا گاڑیوں گھوڑا گاڑیوں کی ٹاپوں اور ٹائروں کے وزن تلے جیسے مسلسل کچلی جاتی ہیں۔مگر منہ سے اف تک نہیں کہتیں۔وہ اس صبح سماں چیختی ہوئی ملیں گی جب کانوں کو کھول کر رکھنا ہوگا۔ویسے صبح اٹھنا تو ہر قوم کے مشاہیر کو پسند رہا ہے۔ویسے بھی انگریز کہتے ہیں ”جلدی بستر جلدی صبح“۔پھر اس پر سارے دنیا کے مفکروں اور دانشوروں کا اتفاق ہے۔مگر ہمارے ہاں تو ایسے بھائی بند ہیں جن کامن بھاتا مشغلہ یہی رات گئے تک جاگنا اور صبح دن چڑھے تک سوتے رہنا۔ رات کو موبائل کے ساتھ تنہائی میں مصروف رہنا اپنی پسند کی سرگرمیوں میں شغل ہونا۔لیکن صبح دیر تک سوئے رہنا۔ ویسے رات بنی ہے تو آرام کرنے کیلئے۔ کیونکہ پرندے سرِ شام اپنے اپنے آشیانوں میں چلے جاتے ہیں۔اپنے بچوں کیلئے منہ میں خوراک دبائے نشیمن کو لوٹ جاتے ہیں۔پھر صبح سویرے چڑیوں کی چہکار سننے کو ملے گی۔ یہ ایک طرح کا الارم بھی ہوتا ہے کہ بس اب اٹھ جاؤ. مگر ہمارے مہربان تو الارم لگا کر سوتے ہیں مگر جب الارم صبح بجتا ہے تو نیند کی حالت میں اس کو ہاتھ سے دباکر خاموش کر دیتے ہیں۔ پھر جب اپنے ٹائم پر خود بخود آنکھ کھلتی ہے تو گھڑی یا موبائل کو ہاتھ میں لے کر مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ کہیں گھڑی خراب تو نہیں ہو گئی۔یہ الارم کیوں نہیں بجا۔ہمارے ایک مہربا ن محبی صبح سویرے اٹھنے کے عادی ہیں۔ ہر چند رات گئے سو جائیں۔ مگرہم تو جس وقت ان کو کال کریں وہاں سے ہیلو کا جواب آتا ہے۔بلکہ ہیلو کرنے کا انداز بھی انگریزوں جیسا ہوتا ہے۔ہیلو کو لمبا کھینچتے ہیں۔ان کی ادائے دلبرانہ ہے۔دل کو بھاتی ہے۔خوش و خرم رہتے ہیں خوش و خرم رہیں۔ان سے پوچھا کہ آپ صبح سویرے کیسے اٹھ جاتے ہیں۔یہ تو بہت مشکل کا م ہے۔ انھوں نے خوبصورت جواب دیا۔میں نے پرندوں کی زندگی پر غور کیا۔صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں۔انسان اشرف المخلوقات ہے اور دن کو سویا رہے اچھا نہیں ہے۔ جب آرام طلب اور بے فکر وبے غم غیر ذمہ دارانہ رویوں کے شوقین سو رہے ہوں۔ میں نے پنچھیوں سے سبق سیکھا ہے کہ اگر یہ اٹھ جاتے ہیں تو مجھے بھی اٹھ جانا چاہئے۔کمال یہ کہ وہ مہربان رات کو دیر گئے مطالعہ بھی کر تے ہیں۔ ویسے حکمیوں دانشوروں نے کہا ہے کم کھانا کم سونا کم بولنا اس میں دانائی پوشیدہ ہے۔ہر بڑا مفکر صبح اٹھنے کا عادی ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ رزق کی تقسیم بھی صبح سویرے ہوتی ہے۔اقبال صبح اٹھنے کے اتنے عادی تھے کہ جب لندن پہنچے تو وہاں کی تند و تیز اور جلد کوکاٹ کر لہوبہانے والی ہوا میں بھی صبح اٹھ جاتے۔وہاں کے بارے میں شعر کہا ”زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی۔نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی“۔اقبال کا یہ شعر بھی ہے ”عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی“۔مراد یہ ہے کہ دنیا میں کوئی فیلڈ ہو خواہ سائنس آرٹس یا روحانیت ہو جب تک صبح سویرے نہ اٹھا جائے انسان اپنے مقصد کو نہیں پاسکتا۔علامہ نے کہا ”جوانوں کو میری آہِ سحر دے۔ پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے۔خدایا آرزو میری یہی ہے۔میرا نورِ بصیرت عام کردے“۔