سرمائے کی غیرقانونی نقل و حمل کا سبب کمزور مالیاتی نظام بنتا ہے‘ جس کے وجود سے منی لانڈرنگ جنم لیتی ہے اور منشیات و اسلحے کی خریدوفروخت کے علاوہ کمزور مالیاتی نظام دہشت گردی کے فروغ اور اِس کی مالی معاونت کا باعث بنتا ہے۔ اِس منی لانڈرنگ کی روک تھام کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے حالیہ اجلاس (پچیس فروری) کے اختتام پر پاکستان کو ایک بار پھر مشکوک ممالک کی فہرست (گرے لسٹ) میں اگلے اجلاس (جون2021ئ) تک شامل رکھتے ہوئے ”تین نکات“ پر توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ آئندہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف غور کرے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے یا اس سے مزید اصلاحات (ڈو مور) کا تقاضا کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کو دوہزار اٹھارہ میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا اور اُس وقت پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی چالیس میں سے تیرہ سفارشات پر اطمینان بخش پیشرفت کی تھی اور ایف اے ٹی ایف نے سال 2018ءمیں پاکستان کو ایک سال کا وقت دیتے ہوئے باقی ماندہ ستائیس سفارشات پر عملدرآمد کرنے کی مہلت دی بصورت دیگر عالمی اقتصادی پابندی عائد ہو سکتی ہیں۔ حالیہ اجلاس (پچیس فروری) کے اختتام پر کہا گیا کہ پاکستان کو ابھی تین سفارشات مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بین الحکومتی ادارہ (تنظیم) ہے جس کا قیام 1989ءمیں عمل میں آیا تھا اور اِس تنظیم کے قیام کے پہلے دن سے پاکستان مشکوک ممالک کی فہرست (گرے لسٹ) میں شامل ہے جبکہ بھارت کی کوششیں رہی ہے کہ وہ پاکستان کو ’بلیک لسٹ‘ ممالک کی فہرست میں شامل کرے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے اور بالخصوص موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان نے ایسی تیزرفتار مالیاتی اصلاحات کی ہیں جو ایف اے ٹی ایف شرائط سے بڑھ کر سخت ہیں اور پاکستان اِس بات کو اپنے قومی مفاد میں سمجھتا ہے کہ یہاں سخت گیرمالی نظم و ضبط لاگو ہونا چاہئے کیونکہ منی لانڈرنگ صرف دہشت گردی ہی نہیں بلکہ جمہوریت کو ’ہائی جیک‘ یا اِسے نقصان پہنچانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن پاکستان کے فیصلہ سازوں کو عالمی سطح پر پائی اور بڑھنے والی اُس مخالفت کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا جس کی وجہ سے اُس پر ’ایف اے ٹی ایف‘ کا دباو¿ برقرار ہے۔ حیرت انگیز طور پر‘ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں بھارت سے زیادہ فرانس نے پاکستان کے ’گرے لسٹ‘ سے اخراج کی مخالفت کی‘ جو عالمی طاقت ہے اور بھارت سے زیادہ اثرورسوخ رکھتا ہے۔ فرانس کی جانب سے اِس مخالفت کے دو محرکات نمایاں ہیں۔ پہلا محرک یہ ہے کہ فرانس اور بھارت کے درمیان اربوں ڈالر کا دفاعی سازوسامان (آلات) خریدنے کے معاہدے موجود ہیں اور دوسرا محرک پاکستان میں فرانس کے خلاف پایا جانے والا غم و غصہ اور نفرت ہے کیونکہ فرانس نے آزادی¿ اظہار کے نام پر اسلام کے مقدسات کی توہین کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور اِس سلسلے میں بارہا گستاخانہ خاکے فرانس میں شائع اور نمائش ہوتے رہے ہیں جس کی پاکستان نے سرکاری سطح پر بھی مذمت کی ہے ۔ اگر پاکستان کے حوالے سے فرانس کے رویئے کو بھارت کے تناظر میں دیکھا جائے تو فرانس کی ایف اے ٹی ایف میں مخالفت باآسانی سمجھ آ جاتی ہے کیونکہ فرانس بھارت کو خوش دیکھنا چاہتا ہے جبکہ بھارت اربوں ڈالرکا فائدہ پہنچانے کے عوض فرانس سے سفارتکاری کے محاذ پر بھی مدد چاہتا ہے۔ اِس صورتحال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ فی الوقت فرانس اور بھارت پاکستان مخالف ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں لیکن پاکستان کو اپنے زمینی حالات اور عالمی صورتحال کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس دباو¿ سے نکلنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بہتر بنائے جائیں کیونکہ فرانس اور یورپی یونین کی پالیسیوں میں فرق ہے اور اِس فرق و امتیاز سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ بظاہر پاکستان کے گرے سے بلیک لسٹ ہونے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں کیونکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی نوے فیصد سفارشات پر عمل کر لیا ہے اور باقی ماندہ تین نکات پر بھی عمل درآمد بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ دنیا پاکستان کے اخلاص اور کوششوں کو دیکھ رہی ہے۔