قابل غور۔۔۔۔۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک مقدمے کی کاروائی کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بار اور بنچ دونوں ایک ہیں یعنی دونوں کا انصاف کی فراہمی میں یکساں اہم کردار ہے مقدمہ اسلا م آباد کی کچہری میں وکلاءکے چیمبر گرانے کے سر کاری حکم کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کیا گیا ہے اس حکم کے خلا ف وکلا ءنے احتجاج کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کیا تھا اس حملے کے نتیجے میں کئی وکلا ءکو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے جب بھی کوئی جج ریٹائر ہوتا ہے فل کورٹ ریفرنس ہو تی ہے یا وکلاءکی تنظیموں کی کوئی تقریب ہو تی ہے اس میں یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جا تی ہے کہ بار اور بنچ میں چولی دامن کا ساتھ ہے دونوں ایک ہی میزان کے دوپاٹ ہیں جہاں بھی اور جب بھی انصاف کا ذکر آتا ہے عدالت کا نا م آتا ہے جج کے ساتھ وکیل کا نام لازماً لیا جا تا ہے جن مما لک میں انصاف کا عادلانہ نظام قائم ہے وہاں ہر مقدمہ دو چار پیشیوں کے بعد فیصلہ ہو جا تا ہے اور اتنی سرعت کے ساتھ مقدمات کے فیصلے ہو رہے ہوں تو وکلا ءکا زیا دہ وقت فارغ گزر تا ہے انگلینڈ ، امریکہ اور جر منی میں وکلا ءکے دفاتر بہت کم نظر آتے ہیں اور جہاں وکلا ءکے دفاتر ہیں ان میں سٹیشنری ، پوسٹ کارڈ ، فوٹو گرافی کا سامان ، فون کارڈ وغیرہ بھی ساتھ ساتھ بکتے ہیں صرف وکا لت سے دفتر کا کرایہ بھی ادا نہیں ہو تا ان مما لک میں عدالتوں کا زیا دہ کام میو نسپل کمیٹیوں کے ذریعے نمٹا یا جا تا ہے ، پو لیس سٹیشنوں میں بھی صلح صفا ئی کے ذریعے مقدمات کو ختم کرنے کا طریقہ کار موجود ہے ‘پا رلیمنٹ کی خصو صی کمیٹی بھی مقدمات نمٹا نے کا کام کر تی ہے اس لئے مقدمات کا سارا بوجھ وکیلوں اور ججوں پر نہیں ہو تاسیا سی عدم استحکام ، سیاسی مقدمات کی بھر مار کو نما یاں وجو ہات قرار دیا جا تا ہے ‘ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ایک جج کو ہرروز 35مقدمات سننے پڑتے ہیں 35 مقدمات کو اگر 8گھنٹوں پر تقسیم کیا جا ئے تو ایک گھنٹے میں 4مقدمات سے بھی زیادہ کی تعداد بنتی ہے ایک مقدمے کو اگر 15منٹ مل جا ئیں تو نہ شہا دت ہو سکتی ہے نہ بحث کی نو بت آتی ہے اس لئے 33مقدمات اگلی تاریخ کے لئے مقرر کر کے ایک مقدمے میں شہادت اور ایک مقدمے میں بحث کی گنجا ئش نکا لی جا تی ہے اگر عمو می طور پر دیکھا جائے تو ما تحت عدالتوں میں فیصلوں کا معیار بہت اچھا ہو تا ہے خصوصاً فوجداری مقدمات میں قاتلوں کو سزائے مو ت سنا ئی جا تی ہے مگر اپیل کے مر حلے میں جا کر قاتل سزائے موت سے چھوٹ جا تے ہیں بعض کو عمر قید کی سزا ہو تی ہے بعض کو شک کا فائدہ دے کر رہا کیا جا تا ہے یہ عمل شہریوں میں بد اعتما دی کا سبب بنتا ہے قانونی حلقوں میں دو متضا د مقولے ہر وقت گردش میں رہتے ہیں کچھ لو گ کہتے ہیں کہ دیر سے انصاف ملنا انصاف نہ ملنے کے برا بر ہے ،اس کے مقابلے میں دوسرا مقولہ یہ ہے کہ انصاف میں جلدی کرنا انصاف کو مٹی میں دبا نے کے مترادف ہے ۔چیف جسٹس نے صاف بات کہی ہے بنچ اور بار دونوں ایک ہی ہیں یعنی دونوں قانونی نظام کے وہ عام حصے ہیں جو انصاف کی تیز اورموثر فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔