قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کے اِنتخابات (تین مارچ) میں ’اُوپن بیلٹنگ‘ کیلئے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے رائے دی ہے کہ ”سینیٹ انتخابات کی رائے شماری خفیہ“ رکھی جائے جبکہ معاملہ ووٹ کی شناخت ظاہر کرنے یا نہ کرنے سے متعلق نہیں تھا بلکہ حکمراں جماعت اِس بارے میں آئینی رائے جاننا چاہتی کہ کیا سینیٹ انتخابات میں مالی وسائل کے استعمال سے ہونے والی دھاندلی کو بدستور جاری رکھا جائے یا اِس کے امکانات ختم کر دیئے جائیں اور ریاستی ستون (عدالت عظمیٰ) نے خود کو اِس پورے تنازعے سے الگ کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ سیاست دان غلطیاں سدھارنے کیلئے اجتماعی دانش (پارلیمان) سے کام لیں۔ فیصلے پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی سامنے آیا ہے۔ قبل ازیں عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہوں گے اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی کہ اسے شفاف بنایا جائے۔ یہ لگاتار دوسرا صدارتی ریفرنس تھا جس میں حکومت کی منشا کے مطابق سپریم کورٹ سے رائے (فیصلہ) حاصل نہ کیا جاسکا۔ اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی مسترد کر دیا گیا تھا تاہم اِس مرتبہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے آرٹیکل 226کے حوالے سے رائے مانگی تھی اور پانچ رکنی لارجر بینچ نے پچیس فروری کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کرنے کے بعد رائے محفوظ کی تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 1: سینیٹ انتخابات آئین کے ”آرٹیکل 226“ کے تحت ہوں گے۔ 2: الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لئے اقدامات کر سکتا ہے اور 3: انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ 4: الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔ 5: پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتا ہے جبکہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔ 6: بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں۔“ یوں تو سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ ہی تاریخی ہوتا ہے اور اِس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے لیکن اِس فیصلے نے کم سے کم ایک معمہ (اصول) ضرور حل (واضح) کر دیا ہے کہ اب بیلٹ (ووٹ) کی سیکریسی دائمی نہیں رہی اور سینٹ انتخابات میں عدالت نے واضح طور الیکشن کمیشن کو ٹیکنالوجی کے اِستعمال کی اجازت دی ہے یعنی اگر الیکشن کمیشن ووٹ پر خفیہ بار کوڈ کے ذریعے ووٹ ڈالنے والے کی شناخت درج کرسکتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا تحریک انصاف کی جانب سے بھی خیر مقدم ہو رہا ہے جسے خفیہ رائے شماری ختم کرنے کی جانب ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے سینیٹ انتخاب میں ڈالے گئے ہر ووٹ کی نشاندہی ہو سکے گی جبکہ سیاسی جماعتوں کو صوبائی اسمبلیوں میں ان کی موجود سیٹوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور اگر ووٹوں کی خریدوفروخت ہوئی یعنی کسی جماعت کو اُس کی نمائندگی سے زیادہ نشستیں ملیں تو انتخابات کی شفافیت ووٹ کی شناخت سے ممکن بنائی جا سکے گی یقینا یہ تحریک انصاف کی فتح ہے‘ جو کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے۔ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی چاہتی ہے اور اراکین کی وفاداریاں خریدنے کیلئے لین دین جیسے معاملات ختم دیکھنا چاہتی ہے۔سپریم کورٹ رائے کی روشنی میں ایسے بیلٹ پیپرز شائع کئے جا سکتے ہیں جن پر ’بارکوڈ (Barcode)‘ شائع کیا جا سکتا ہے۔ 1951ء میں ایجاد ہونے والے بارکوڈ کی فی الوقت کئی اقسام ہیں اور اِس کی ترقی یافتہ شکل ’کیویک ریسپانس کوڈ المعروف کیوآر کوڈ (QR Code)‘ ہے جو 1994ء میں منظرعام پر آیا اور یہ جاپان کی ایجاد ہے۔ بار کوڈ کی کئی اقسام اور کیو آر کوڈ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر صرف اعداد کیلئے جبکہ کیوآرکوڈ کئی طرح کی معلومات محفوظ کرنے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے لیکن دونوں قسم کے کوڈز کی خرابی یہ ہے کہ اِن کی سیکورٹی کو باآسانی توڑا جا سکتا ہے اور اگر کسی طریقے سے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے والوں کے نام بمعہ بار کوڈ یا کیو آر کوڈ ظاہر (پبلک) ہو گئے تو ہر ووٹر کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا جائے گا کہ اُس نے اپنا ’حق رائے دہی‘ استعمال کرتے ہوئے پارٹی کی جانب سے دی گئی ہدایات پر کس قدر عمل کیا۔ رائے (فیصلہ) سنانے سے قبل چیف جسٹس کے ریمارکس لائق توجہ ہیں کہ ”عدالت کا سیاست سے تعلق نہیں اور وہ صرف آئین کی تشریح کرے گی“ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ”عدالت ریفرنس پر رائے دے یا نہ دے‘ اثرات سیاسی ہی ہوں گے۔“ اور اٹارنی جنرل نے بھی اس کی تائید کی کہ ”صدارتی ریفرنس اگرچہ اور ہرگز سیاسی معاملہ نہیں لیکن اس کے سیاسی نتائج ضرور ہوں گے۔“ سینیٹ انتخابات سے دو روز قبل عدالتی رائے (فیصلے) کے سیاسی اثرات اپنی جگہ لیکن جو بھروسہ ٹیکنالوجی پر سامنے آیا ہے اُس سے نہ صرف سینیٹ بلکہ آئندہ تمام عام انتخابات میں مدد لی جائے گی۔ یہ ایک ایسا مرحلہئ فکر ہے جہاں اراکین اسمبلی اپنے ہی بنائے ہوئے اَصول و قواعد اور قوانین کی پاسداری کا حلف اُٹھانے کے باوجود بھی عمل درآمد کرنے پر متحد و متفق نہیں۔ تو کیا جو کام قانون و قواعد اور حلف نہیں کر سکا کیا وہ ٹیکنالوجی کر پائے گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس پورے قضیے میں ٹیکنالوجی بھی مشکوک و متنازعہ بن جائے۔