اب مارچ سے سکول پھرسے کھل گئے ہیں بچوں کے مزے اور کھیل تماشے ختم۔ سکول سے گھر آئیں گے تو ہوم ورک میں الجھے رہیں گے۔ ہوم ورک کر کے کھیلنے کودنے کیلئے انھیں ماں باپ کی طرف عاجزی سے دیکھنا ہوگا۔ اگر پپا ممی کے دل میں رحم آگیا تو انھیں کھیلنے کاموقع دیں گے۔ وگرنہ تو سال بھر کے کھیل تماشوں سے تو والدین خود اکتا گئے ہیں۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل مزید برباد نہ ہو‘یکم فروری سے سکول کے دراوازے آدھے کھلے آدھے بند رکھے گئے۔ ایک گروپ کلاس میں آتا تو دوسرا گروپ اگلے دن حاضری لگاتا۔پورا سال پڑھا ئی لکھا ئی کامزہ نہ تھا۔ مگر اب جب سکول کھل جائیں گے تو بھی حاضری ویسے نہیں ہوگی جیسے اس عالمی وبا سے پہلے تھی مگر اب پھر سے بچہ لوگ جو سال بھر مزے سے زندگی گذار لئے سکول کو رواں دواں ہوں گے۔ وہ نانی ماں کے گھر کو جانا او رپھر واپس نہ آنا۔اور فون کر کر کے انھیں منگوانا ختم۔اب تو سکول کی گاڑی ہوگی اور اس پر بستے لدے ہوں گے اور بچے اندر پھنسے ہوں گے۔گاڑی سکول کورواں ہوگی۔بلکہ بسیں تک شہری آبادی میں تنگ اور گنجان راستوں پر فراٹے بھرتی ہوئی جاتی ہوں گی۔کسی راہگیر کو کچل دیں ا س کی پروا نہیں کریں گے۔بچوں نے لاک ڈاؤن میں بھی کچھ غیر ذمہ دار ابو امی کے ہمراہ دور کے علاقوں کی سیر کی۔ یہ تو قدرت کی مہربانی ہوئی کہ ہمارے ہاں کورونا کے وارکارگر نہ تھے۔ کیونکہ مغربی ملکوں میں تو لوگ گاجر مولیوں کی طرح مرگئے۔ بلکہ اس وائرس کی تیسری لہر کی باز گشت بھی سنی جا رہی ہے۔سکول تو کھل گئے ہیں۔مگر کاش ایسا نہ ہو کہ بعض سکولوں کو پھر سے بند کرناپڑے۔یا اس علاقے میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگانا پڑے۔ کیونکہ کورونا کے جراثیم کیلئے رش کی حبس محبوب فضا کا نام ہے۔جہا ں یہ وائرس خوب پروان چڑھتا ہے۔سکول میں مہینہ بھر پہلے کچھ بچے آنے لگے تھے کچھ نہیں آ تے تھے۔کالجوں تک میں حاضری بہت کم تھی۔ اب کے اگرسکولوں میں ماسک نہیں پہنے گئے یا ایس او پیز کی پابندی نہ کی گئی تو اس سکول کے خلاف سرکاری مشینری حرکت میں آئے گی۔ پھر دوسری بات یہ کہ اب تو داخلے کیلئے ماں باپ کومیڈیکل رپورٹ بھی ساتھ پیش کرنا ہوگی۔حکومت نے احتیاط کے طور پر سال بھر سکولوں کی بندش جاری رکھی۔ مگر اب تو پڑھائی کے لحاظ سے بچوں کا کافی زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔سو حکومت نے سنجیدگی سے سکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر شاید بعض بچوں کو ناراضی ہو مگر پاپا او رممی تو خوش ہوئے۔ کیونکہ بچوں نے گھر کو بچوں کا گھر بنا رکھا تھا۔خوب اوھم مچایا۔ دھما چوکڑی مچی۔چھپن چھپائی کھیلی جا رہی تھی۔ کوئی پلنگ کے اوپر چڑھ کر ناچ رہاہے تو کوئی چارپائی کے نیچے چھپا ہوا ہے۔جو بچے سکول جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کیلئے توگذرا سال بہت اچھا تھا اور آنے والا تعلیمی سال سخت ہوا۔ بلکہ یوں کہئے تو بہتر ہوگا کہ تمام بچوں کیلئے اب نئی فضا میں سکول جانااور روز جانا مشکل ہو جائے گا۔کیونکہ بچہ تو بچہ ہو تاہے۔جس کا زیادہ تر ذہنی رجحان کھیل کود کی طرف ہوتا ہے۔ان کو بعض اماں باوا نے مشین بنا رکھا ہے۔ ہر وقت کی پڑھا ئی نے ان کو چڑچڑا بنا دیا ہے۔ان کی ذہنی صحت کے ساتھ کھیلا گیا۔کیونکہ پھر وہی بات کہ باہر کے ملکوں میں پڑھائی کے معاملے میں پالیسی بچوں کے حوالے الگ تھلگ ہے۔اب بچوں کی نانی اماں کیا کرے گی۔وہاں ان کے گھر ان بچوں کی انٹری کی رفتا تیز تر نہیں رہے گی۔ اب تو وہاں دھیرج سے جایا جائے گا۔ نانی جان خفا ہوں گی۔مگر بچوں کی بہتری اور ان کے بہتر مستقبل کیلئے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا۔اب کے پھر سے یوں جینا ہوگا۔سو اب بچوں کی شرارتیں نہ ہوں گی۔ وہ شور شرابا جو پہلے تھا پورے سال تھا اور ہر چوتھے گھر میں تھا وہ ماحول کے بدل جانے سے کچھ نہ کچھ بہترہو جائے گا۔ویسے بات خوشی کی ہے کہ سکول کھل گئے۔وجہ یہ کہ تعلیم کا عمل جو رک چکا تھا اور سکول کالج کی پر بہار فضا جو دل کو تراوت دیتی تھی ویران تھی۔