اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔

جب واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کی خبریں ڈھائی سال پہلے آنے لگیں تو جوبائیڈن نے ڈیموکریٹ پارٹی میں ایک بحث کے دوران کہا تھا”جمال خشوگی کی ہلاکت کا سبب بننے والے سعودی اہلکاروں کو اس کی قیمت ادا کرنی چاہئے۔ میری حکومت آئے گی تو انہیں اچھوت بناکر رہے گی تاہم اب وائٹ ہاو¿س کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا ”ہمارا مقصد تعلقات کی ترتیبِ نو ہے، اسے خراب کرنا نہیں۔ بائیڈن کاکام امریکہ کے قومی مفاد کےلئے کام کرنا ہے اور یہی وہ کر رہے ہیں۔امریکہ نے اس سے قبل شام کے صدر بشار الاسد، شمالی کوریا کے کم جونگ ان، وینزویلا کے صدر نکولس مادورو اور زمبابوے کے سابق وزیر اعظم رابرٹ موگابے پر پابندیاں عائد کی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی امریکہ کا اتحادی نہیں تھا۔سچ یہ ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی ریاستیں اپنے فیصلے اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی مفاد کی بنیاد پر لیتی ہیں اگرچہ نام وہ انسانی حقوق اور آزادیوں کا ہی لیتی ہیں۔شام کی حکومت نے تین سال پہلے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو سابق امریکی صدر ٹرمپ نے شام کے صدر بشار الاسد کو ”ایک جانور“ کہا جو اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ تاہم امریکہ، اس کے برعکس، اپنے اسرائیل جیسے اتحادیوں کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہتا ہے اور الٹا ان کی حمایت جاری رکھتا ہے۔اگرچہ امریکہ خود کو انسانی آزادی، مساوات، جمہوریت اور امن کے محافظ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے لیکن وہ ایران کے بادشاہ، تائیوان کے چیانگ کائی شیک، نکاراگوا کے سموزا خاندان، مصر کے حسنی مبارک سمیت کئی جابرانہ حکومتوں اور مصر کے موجودہ آمر عبد الفتح السیسی سمیت کئی فوجی آمریتوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کو جوہری ہتھیار ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے اور جوہری ہتھیار رکھنے پر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی لیکن عراق کے شہر اس جھوٹے بہانے کی بنیاد پر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردئیے جاتے ہیں کہ یہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار/ ذخیرہ کررہا ہے اور ایران کے خلاف بھی ایٹمی پروگرام جاری رکھنے پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔امریکہ نے بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی طرف سے فوجی سہولیات اور جوہری ایندھن کے ذخیرے کی جانچ پڑتال سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ جس سے ہندوستان جاپان ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، جنوبی کوریا ، کینیڈا ، ارجنٹائن ، قازقستان منگولیا اور نمیبیا کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں مطلوبہ ہندوستانی اور پاکستانی رکنیت کے بارے میں امریکہ کی پالیسی بھی دہرے معیار کا ثبوت ہے۔ پاکستان اور بھارت نے 2016 میں این ایس جی کی رکنیت کےلئے درخواست دی تھی۔ اگرچہ عدم پھیلاو¿ معاہدہ پر دستخط گروپ میں داخلے کےلئے ایک شرط ہے اور ہندوستان نے اس پر دستخط نہیں کئے ہیں، لیکن امریکہ بھارت کےلئے این پی ٹی پر دستخطی استثنیٰ ختم کرنے میں پیش پیش رہا ہے مگر اس نے سات پاکستانی کمپنیوں کوان غیر ملکی اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے جو سخت برآمدی نگرانی میں ہیں۔ اس اقدام سے این ایس جی میں شمولیت کےلئے پاکستان کی کوشش میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تشکیل بھی انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ ہر رکن ریاست کو مساوی عزت حاصل نہیں۔ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور دی گئی ہے یعنی اگر سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے کوئی ملک خود یا اس کا کوئی حلیف جارح یا غلطی پر ہے تو اس کے خلاف کوئی کاروائی ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقل رکن اس طرح کے اقدام کو ویٹو کردیتا ہے۔امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا استعمال کرکے اسرائیل کو کئی بار فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور غیر قانونی آباد کاریوں کی مذمتی قراردادوں سے بچایا ہے۔ایک اور مثال پاک بھارت تعلقات پر ان کی سوچ ہے۔ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں دونوں کے مابین جنگ عالمی امن کےلئے خطرناک نتیجہ پیدا کرسکتی ہے لیکن امریکہ باہمی مذاکرات کے ذریعے ان کے مسائل حل کرنے کی بات کرتا ہے۔ چونکہ بھارت پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے بات کرنے کےلئے تیار نہیں ہے لہٰذا پاکستان کشمیر پر ثالثی کےلئے بڑی طاقتوں پر بجا طور پر زور دیتا ہے۔ بھارت کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تنازعہ قرار دے کر اس بات کو مسترد کرتا ہے۔ چنانچہ جب امریکہ اور برطانیہ اصرار کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان باہمی بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات حل کریں اور کشمیر پر ثالثی کرنے یا وہاں ہونے والے مظالم پر بھارت کی مذمت کرنے سے انکار کر دیں تو وہ دراصل بھارت کی حمایت کررہے ہیں۔ آخر پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات کو پر امن طریقے سے اور باہمی بات چیت کے ذریعے کیسے حل کرسکتے ہیں جب بھارت پاکستان سے بات کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔