چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے۔۔۔

 بچوں کے پیپر ہو رہے تھے ۔وہ کتاب لے کر آ گئی کہ مجھے یہ سوال نہیں آرہا ۔ میں نے کہا بیٹا دوبارہ دوبارہ پڑھو سمجھ میںآ جائے گا۔درختوںاور گیسوں وغیرہ کا ذکر تھا۔میں نے سوچا اس نے مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ مشکل انگریزی زبان کی تھی۔ چلو میں نے تو سوال کو سمجھ لیا۔ مگر اب میں چھٹی کلا س کی بچی کو انگریزی میں معاملے کی تہہ تک کیسے پہنچا¶ں۔ اس کا تو اس بات پر زور تھا کہ اس لفظ کا کیا مطلب ہے اور اس کا کیا مطلب ہے ۔ارے میں نے کہا تم کو تو رٹے ماری کرنی ہے ۔ کل پرچہ ہے اور راتوں رات کون سی پڑیا تجھے دوں کہ سب کچھ تمہارے ذہن میں داخل ہو جائے۔سوچ میں تھا کہ اسے انگریزی سکھلا¶ں یا درختوں کے بارے میں بتلا¶ں۔میں نے کہا بیٹا چلو سوال میںانگریزی الفاظ کو بعدمیں سمجھ لیںگے ۔ پہلے تو یہ جانو کہ درختوں کا یہ معاملہ کیا ہے ۔میں نے کہا درخت بھی جاندار ہیں۔ ان کو زندہ رہنے کےلئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ان کو زندگی کے لئے دھوپ پانی اور ہوا کی ضرورت پیش آتی ہے ۔میں نے کہا بات تو بہت خوبصورت ہے۔ٹھیک ہے اور درست بھی۔مگر یہاں اس سوال میں درختوں کی خوراک کا ذکر نہیں ۔یہاںتو وہ مسئلہ بیان ہوا ہے جو نہ صرف ہمارے شہر کا ہے بلکہ پوری دنیا کا ہے ۔وہ مسئلہ یہ ہے کہ درخت کیوں کاٹتے ہو۔مسئلہ ماحولیات او رفضائی آلودگی کا ہے ۔دیکھو جو درخت او رسبزہ ہے وہ ہمارے ماحول کا اہم ترین حصہ ہے ۔سمجھو درخت ماحول کے پھیپھڑے ہیں۔یہ جو خوراک کھاتے ہیں وہ گیسیں اور دھوئیں حبس مٹیاں گرد وغیرہ ہیں۔ پھر اس کے جواب میں جو وہ اندر سے نکالتے ہیں وہ حیران کن طور پر آکسیجن ہے ۔ جس میں خود ہمارے جیسے انسانوں کی زندگی ہے۔یہ جو زمین پر گرمی کاموسم زیادہ ہو رہاہے ۔اس کی وجہ یہی درختوں کی کٹائی ہے ۔اگر درخت نہ کاٹے جائیں تو ماحول خوبصورت ہو سکتا ہے۔یہ جتنی بھی مٹی گردو غبار اور دھول ہے جو دھوئیں ہیں نہ رہیں اگر درخت زیادہ سے زیادہ ہوں۔ ہمارے ہاں درخت کاٹنے کی طرف پبلک کارجحان بہت زیادہ ہے ۔مگر درخت لگانے کےلئے صرف ایک فی صد شہری ہی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔کچھ روز کی خوشی کی خاطر یہ لوگ درخت کاٹ بیچ کر اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔مگر دور رس نتائج ہمارے انسانوں کے خلاف نکلتے ہیں۔گویا ہم ایک درخت جو کاٹتے ہیں تو اپنے لئے ایک تابوت بنالیتے ہیں۔اگر درخت راستے میں آتا ہے تو اس کو پہلے کاٹ دیا کرتے تھے۔ گھر بنانا ہے توکھیت میں سے سارے درختوں کو اکھاڑ کر پھینکا جائے گا۔ مگر باہر کے معاشروں میں اگر تعمیر کے راستے میں کہیں درخت آگیا تو وہ اسے نہیںکاٹیں گے۔ بلکہ اس کو اسی بلڈنگ کاحصہ بناڈالیں گے۔جی ٹی روڈ پرکچھ درخت لا کر انسٹال کئے گئے ہیں ۔اگرچہ کہ راستے میں آتے ہیں مگر ان کو اگنور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ ماحول دوست ہیں ۔ ان کو برداشت کرناہے۔اگر درخت زیاد ہ ہو جائیں تویہ سانس کی تنگی کو دور کرتے ہیں۔اچھی ہوا دیںگے۔شہر میں جہاں جہاں درخت ہیں وہاں کی آب وہوادوسرے علاقوں کے مقابلے میں بہت ٹھنڈی ہوتی ہے۔پھر جہاں درخت ہوں وہاں پرندے بھی آتے ہیں ۔ وہ تو کچی مٹی میں پیوست ہوئے درختوں کی شاخوں پرآشیاں بناتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں فضا کو نشیلا بنادیتے ہیں۔ مگر اس نزاکت کو کون سمجھے گا کون سمجھائے گا۔ہمارے شہر سے بہت بیدردی کے ساتھ درختوں کو خود مالکان کاٹ کر وہاں کمرشل پلاٹ بنا رہے ہیں۔تاکہ اس زمین کو بیچ کراچھے پیسے بنائیں۔اپنے بال بچوں کے اچھے مستقبل کےلئے کچھ سوچیں۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ درختوں کا نہ کاٹنا اپنی آئندہ نسل کےلئے ایک اچھی سوچ ہے ۔جتنے زیادہ درخت ہوں گے فضا اتنی ہی خوشگوار ہوگی۔جس رفتار سے درختوں کو کاٹ کر زمین بوس کیا جاتا ہے اس رفتار سے درخت لگائے نہیں جاتے۔اب چونکہ بہار شروع ہو چکی ہے۔ ہمارے شہریو ںکو چاہئے کہ اگر ان کے گھر میں گنجائش ہو تو ایک آدھ درخت لگا لیں۔پھر درخت کے کاٹنے کا عمل تو پل جھل میں مشینی آری کے ساتھ ہو جاتا ہے مگر درخت لگانے کے بعد اس میں پودا درخت بن جائے اس پرسالوں لگ جاتے ہیں۔درخت لگانا تو چھوڑ پہاڑوں پر سے لکڑیاں کاٹ کر لانے والے لوگ درختوں کو جڑوںسے اکھاڑ کر لے گئے ہیں۔ہمیں اس وقت درختوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ گلوبل وارمنگ کا سب سے اہم قصور یہی درخت کاٹنا ہے جو ہم فراوانی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ درخت کاٹنااگر جرم قرار دے دیا جائے تو شاید کوئی اچھا راستہ نظر آئے ۔وگر نہ تو جس سپیڈ سے درخت کٹ رہے ہیں ۔ہماری انسانوں کی نسلوں کے ختم ہوجانے کااندیشہ ہے۔پھر جو باقی رہیں گے وہ کسی نہ کسی بیماری کاشکار رہیں گے۔