لائق ِمطالعہ: معاشی کامیابیاں۔۔۔۔

رواں ہفتے چین کے صدر ژی جن پنگ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر تاحال زیربحث (ٹرینڈ بنا ہوا) ہے کہ سال دوہزاربارہ میں صدرات کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اُنہوں نے دس کروڑ لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کا وعدہ پورا کر دیا ہے اور اِس بات کواقوام متحدہ تنظیم کے ذیلی مالیاتی اداروں جیسا کہ ورلڈ بینک بھی تسلیم کر چکا ہے سال اُنیس سو نوے میں چین میں 75 کروڑ افراد خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ چین کی آبادی کا کل آبادی کا دو تہائی حصہ تھا جبکہ دوہزاربارہ تک یہ تعداد کم ہو کر نو کروڑ تک آ گئی تھی اور دوہزارسولہ تک یہ تعداد مزید کم ہو کر بہتر لاکھ (آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد) رہ گئی۔ واضح ہے کہ دوہزارسولہ میں بھی چین غربت میں کمی لانے کے لئے کوشاں تھا اور مجموعی طور پر چین میں تیس سال پہلے آج کے مقابلے ساڑھے 74 کروڑ لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار چین کے جاری کردہ اعدادوشمار سے مطابقت رکھتے ہیں۔ خطے کے ایک اور ملک ویت نام میں بھی اسی دورانیے میں انتہائی غربت کی شرح میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔ایک اور بڑے ملک بھارت کی بائیس فیصد آبادی غربت کی بین الاقوامی طور پر طے شدہ لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ برازیل کی قریب ساڑھے چار فیصد آبادی یومیہ دو امریکی ڈالر سے کم آمدنی کماتی ہے۔ چین میں غربت میں تیزی سے کمی ایک طویل عرصے سے مستحکم اقتصادی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ زیادہ تر توجہ غریب ترین دیہی علاقوں پر رہی ہے۔حکومت نے کروڑوں لوگوں کو دور دراز دیہات سے نکال کر اپارٹمنٹ کمپلیکسز میں منتقل کیا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ عمارتیں قصبوں اور شہروں میں بنائی گئیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ پرانے دیہات کے قریب نئے گاو¿ں بسائے گئے مگر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ لوگوں کو گھر یا ملازمت تبدیل کرنے میں انتخاب کی آزادی نہیں تھی۔کچھ کے نزدیک دیہی علاقوں میں وسیع پیمانے پر غربت کی ایک وجہ خود کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیاں تھیں۔گذشتہ چالیس سال میں چین میں ہوئی ترقی انتہائی غیر معمولی ہے مگر شدید غربت سے لوگوں کو نکالنے میں یہ کامیابی صرف حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کے لوگوں نے خود بھی انتہائی محنت کی ہے اور غربت کی گہرائیوں سے خود کو بلند کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔ کسی ملک کی حکومت اگر چاہے کہ وہ اپنے ہاں سے غربت میں کمی لائے تو یہ ہدف وہ تن تنہا نہیں کر سکتی جب تک کہ عوام کی رضامندی اور شراکت شامل حال نہ ہو۔ چین نے شدید غربت سے نمٹنے کےلئے خاطر خواہ کام کیا ہے مگر کیا اسے خود کو بلند معیار کا حامل قرار دینا چاہئے؟ مثال کے طور پر ورلڈ بینک بالائی متوسط آمدنی کے ممالک کےلئے غربت کی لکیر کو بلند سطح رکھتا ہے جس کا مقصد وہاں موجود معاشی حالات کی بہتر عکاسی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ معیار یومیہ ساڑھے پانچ امریکی ڈالر آمدنی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق چین اب بالائی متوسط آمدنی والا ملک ہے۔چین کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی اب بھی اس معیار کے اعتبار سے غربت کی شکار ہے۔ علاوہ ازیں چین میں غیر مساوی آمدنی کا مسئلہ بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ گذشتہ سال چینی وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے کہا تھا کہ اب بھی چین میں ساٹھ کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی بمشکل ایک ہزار یوآن (154ڈالر) ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ یہ آمدنی کسی شہر میں ایک کمرہ بھی کرائے پر حاصل کرنے کےلئے بھی ناکافی ہے مگر ترقی کے کسی بھی معیار اُور پیمانے (زاویئے) سے دیکھیں‘ چین نے گذشتہ چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو سخت ترین حالات ِزندگی سے نکالنے میں زبردست پیش رفت کی ہے اور یہ پیشرفت (تجربات اور اِن کے نتائج) پاکستان جیسے ترقی پذیر اور زراعت کی بجائے صنعتوں پر انحصار کرنے والے ممالک کےلئے اہم (لائق ِمطالعہ) ہیں۔