وہ تو اپنا مزے سے نئی نویلی یا ایسی ویسی یا پھرجیسی تیسی گاڑیوں کے آرام دہ نرم گدوں والی سیٹوں پر شاہِ شطرنج کے بادشاہ بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ان کو اس بھیڑ بھاڑ والے تنگ چوک میں ان سے آگے الجھے ہوئے ٹرک ڈرائیور کے رنج و الم کا بھلا کیا احساس ہوگا۔ ہارن پہ ہارن بجائیں گے ۔اپنا وہ حق مانگیں گے جو ان کا نہیں۔ راستہ مانگیں گے جو ان کے نام اس وقت تک نہیں جب تلک آگے والا چل دے۔ پھر یا سامنے سے ہٹ جائے۔ جی ہا ں میں نے ٹرک ڈرائیور لکھ دیا ۔مگر مراد ٹرک نہیں تھا۔ گاڑیوں کے آگے جانے والا چھوٹی سی ڈی سیون ٹی موٹر سائیکل پر تین عدد بچوں اور ایک عدد ان کی اماں کے اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ سوار ہوتاہے ۔پھر اس کی عمر خود بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی ہو۔ اس کے ناتواں ہاتھوں میں اتنی تاب نہ ہو کہ وہ گنجلک ٹریفک میں دائیں بائیں اور پھر بائیں سے دائیں اپنے باز¶ں کے ڈولوں کی جاتی ہوئی شکل و شباہت کو نئے سرسے تشکیل دے ۔میں اس موقع پر اس لوہے کے گھوڑے کو ٹرک نہیں کہوں تو او رکیا کہوں ۔ جس کو کسی موڑ پر اس بھیڑ میں اپنے رخ پر لے جانا مشکل ہو ۔جس پر کپڑوں کے شاپر لٹکے ہوں اور سودا سلف کے لفافے آویزاں ہوں۔ یہ تو غریبوں کی سواری ہے ۔ ہر چند کہ غریب نے اپنا پیٹ کاٹ کر اور بال بچوں کے ماہانہ اخراجات میں سے ڈنڈی مار کر ان کے سکون کے لئے اس کو قسطوں پر خریدا ہو۔مگر اس حد تک بھی یہاں مفلس و کنگال شہریوں کو جینے کا حق نہ دیا جائے تو پھر اس شہرِ بے اماں کا کیا ہوگا۔ہلال رفیق کا شعر اس وقت نوکِ زباں ہے ۔” چلو اب کوچ کر جائیں یہاں سے ۔ پشاور بے اماں ہونے لگا ہے “۔پہلے دریا¶ں کے بہنے کا سنتے تھے۔ پانچ دریا سے پنجاب اور پھر پشاور ٹو چارسدہ پانچ دریا پھر بیچوں بیچ او ر بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر بعد میں سات سروں کابہتا دریا ان سُروں کو لے کراکٹھے بہتا دریا سننے میں آیا۔ مگر اب ہم نے اتنی ترقی کر لی کہ پشاو رکے چپے چپے پر رش میں گاڑیوں کا بہتا ہوا دریا ہر سڑک پر ہمہ وقت موجودہے ۔یہ وقوعہ عام دنوں کا بھی نہیں ہے۔ یہ تو اتوار کے روز کی واردات ہے ۔یہاں سے سات سُر تو نہیں نکلتے ہاں گاڑیوں کے ہارن ا س طرح بجتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جلترنگ بج رہا ہے ۔جل تو پانی کو کہتے ہیں ۔ سات پیالوں میں سے ہرایک میں دوسری پیالی سے کم پانی ہوتا ہے ۔ پھر بجانے والا دو ڈنڈیاں لے کر ساتوں پیالیوں پر دھیرے سے چوٹ دیتا ہے تواس چین کے ملک کے ساز سے مترنم خوبصورت آواز نکلتی ہے ۔مگر چوک میں الجھی ٹریفک کی ستائیں گاڑیوں کے ہارن یوں بجتے ہیں کہ اگر ان پر جلترنگ کا گمان ہوتا تو چلو سکو ن سے ٹریفک جام میں الجھے رہنے کو فوقیت دیتے ۔ ڈھیٹ بن کر راستہ بند کر کے مزید الجھا¶ پیدا کر تے۔ کیونکہ ” جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلا ¶ ہے ۔ٹریفک کے باب میں ایک گھا¶ ہے اور پھر الجھا¶ ہے۔ویسے چار پہیوں کی گاڑیاں بھی بے شمار ہیں اور دو پہیوں کی سواریاں بے قطار ہیں۔ان اونچی نیچی راہوں ان ٹھنڈی ٹھنڈی آہوں میں جہاں موٹر بائیکیں الجھی پڑی ہوں وہاں گدھا گاڑی والے بھی درمیان کے لوگ بن جاتے ہیں ۔” تو اپنے مرے درمیاں مت دے کسی کو دخل ۔ ہوتے فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ“ ۔ یہ تو اپنا راستہ لینا چاہتے ہیں۔ اگر گدھے کے سر پر سینگ ہوتے تویہ اپنے گدھوں کے سینگ بارہ سنگھے کے سینگوں کی طرح اس رش میں اور بھی الجھا دیتے ۔ جیسے بارہ سنگھا جھاڑیوں میں سر کے بل الجھے ۔ پھر مشکل سے چھوٹا تو چھوٹا وگرنہ جنگل کا بادشاہ آکر اسے ہڑپ کر لیتا ہے ۔یہاں تو اس بھیڑ بھاڑ میں جنگل کا بادشاہ یا اس کاکارندہ آکر ٹریفک الجھا¶کو پیداکرنے کے خلاف چالان بھی تو جاری نہیں کرتا تاکہ کچھ بے اماں ہونے کی کیفیت کم کم ہونے لگے ۔ مگر اب کوچ کر بھی جائیں تو کہاں جائیں ۔نہ تو ہم اس شہر کو چھوڑتے ہیں او رنہ ہی یہ شہر ہمیں کہیں چھوڑتا ہے ۔بہت ہوا تو ایک آدھ دن کے لئے کہیں جانے کی اجازت دے ۔ وگرنہ تو یہ شہرِ نگار ہمارے دل میں بستا ہے او رہم اسے سینے میں لئے دوسرے شہروں میں گھومتے پھرتے ہیں ۔” قدمو ں میں ترے جینا مرنا ۔ اب دور یہاں سے جانا کیا“ ۔وہی پشاور وہی ہم وہی سڑکیں گلی کوچے گلیار کھیت کھلیان محلے بانڈے قریے او رٹا¶ن۔یہی پشاو رہے او رہم ہیں۔مگر اس کے باوجود ” فراز سنگِ ملامت سے زخم زخم سہی ۔ ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے“۔ جیسے فراز کو اپنا آپ عزیز ہے ہمیں اسی طرح اپنا آپ یعنی یہ شہرِ دلبر پشاور ہزار طرح سے عزیز ہے ۔ کچھ مہربان کچھ امید گاہ کچھ پیارے کچھ عزیز کچھ رشتہ دار یہاں بستے ہیں۔پھر جہاں ہمارے پرکھوں کی ہڈیاں ہیں وہ مٹی کی ڈھیریاں بھی تو ہمیں عزیز ہیں ۔ ہمیں پشاور کہا ں چھوڑتا ہے کہ ہم ہلال رفیق کے فقط ایک شعر پر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ واہ کیسی بات کر دی ۔