توکیا ہم انفارمیشن سے چمٹے رہیں گے۔ معلومات کے نام پر ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے ۔ ایک طوفانِ بلا خیز ہے ۔ جو اپنے ساتھ سب کچھ بہاکر لا رہاہے اور لے جار ہاہے ۔کیاکچھ نہیں جو ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمارے ذہنوں میں منتقل ہورہا۔ سیکھنے کے ہزار ہا مواقع ہیں۔ اسی لئے عرض ہے کہ ابھی تو ہم نے کچھ سیکھا ہی نہیں ۔جتنا جتنا دیکھتے جاتے ہیں۔ جتنی انفارمیشن حاصل ہو رہی ہے ۔موبائل سکرین پر خبروں اور دوسرے ذرائع سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔سنتے تھے انسائیکلو پیڈیا لے لوسب کچھ مل جاتا ہے۔ مگر وہ ادھورا ہو تا تھا۔ پھر مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔کیونکہ اس کی قیمت ہزاروں روپوں میں ہوتی تھی۔ پھر اس کی بہت جلدیں بہت ہوتی تھیں۔ آج جتنی مرضی اتنی جلدیں ہوں ۔ ہر آدمی نے کیوں نہ لکھا ہو ۔مگر نیٹ کی دنیا اس سمندر میں سمندری مخلوقات کی طرح ہر شئے ہر رنگ میں دستیاب ہے ۔کیا کیا ڈا¶ن لوڈ نہیں کیا جا سکتا۔ جن خبروں تک ہماری رسائی نہیں ہوتی تھی اب نیٹ پر سب کچھ دکھتا ہے سب دکھاتے ہیں سناتے ہیں۔لیکچر دیتے ہوئے پروفیسر ملیں گے سائنسدان اپنی تقریر کرتے ہوئے پائے جائیں گے ۔ غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنی دوا بیچتے نظر آئیںگے ۔گویا موبائل کو جھولی میں لے کر بیٹھو کھانے پینے کی فکر نہیں رہے گی۔ سارا دن کیسے گذر گیا پتانہ چلے کہ رات کیسے بیت چلی ۔جو بیت گئی سوبیت گئی ۔ان باتوں کو دہرانا کیا ۔مگر المیہ یہ کہ آپس کا میل جول گیا خاک ہوا۔ کہیں مجبوری کے کارن شادی بیاہ خیر شر میں شرکت کرنا ہو تو الگ بات ۔کسی دفتر میں ملازمت کر رہے ہوں تو جدا قصہ ہے ۔وگرنہ ہمارا بس چلے تو بھائی لوگ موبائل کو لے کر جیسے بلی کا بچہ ہاتھ میں ہو کبھی ایک کمرے میں جاتے ہیں اور کبھی دوسرے کمرے میں ۔ چھٹی کا دن اگر کام کاج نہ ہو تو اسی جامِ جمشید کے اندر جھانکنے میں گذر جاتا ہے۔میں کہوں ٹی وی بھی لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہیڈ لائن سن لو دیکھ لو ۔ڈرامے دیکھو لو ۔ ہمارا نہیں تو باہر کے ملک کا آزاد میڈیا دیکھ لو ۔حقیت تک پہنچناآج کل تو کارِ گراں نہیں ۔ بس دو ہاتھ پر ہے ۔کسی مسئلے میں الجھے ہوں تو اس معاملے میں گوگل سے رہنمائی لے لو ۔ سب کچھ اور پھر وہ بھی وافر ۔ ایسا کہ ٹھاک سے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔طالب علم ہو یا سکالر ہر ایک کو مرضی کا مواد مل جاتا ہے۔پرانے زمانے کے لوگوںکو او رپھر بڑے ہیرو ز کو چلتا پھرتا بولتا چالتا دیکھ لو۔ پھر یہاں تو یو ٹیوب میں جہاں اداروں کے چینل ہیں وہاں تو بندوںنے بھی اپنی مقصدیت کے تحت چینل کھول رکھے ہیں ۔جن میں خواتین بھی آگے آگے ہیں۔ جن کامقصد پیسہ بناناہے ۔اگران کے یو ٹیوب چینل پر مقررہ ہزاروں گھنٹے پورے کرنے کا ٹاسک پورا ہوگیا ۔ توپھر نیٹ کے کرتا دھرتا¶ں کی طرف سے آمدنی شروع ہو جائے گی۔ بعض حضرات تو اس مٹھائی کو حاصل کرنے کے پیچھے پڑے ہیں ۔ لیکن برا تو نہیں ۔ جب ہم جیسوں کا معلومات حاصل کرنے کا مقصد مفت میں پورا ہوتا ہے تو ہمیں کیا۔ہم اگر کسی معاملے میں یو ٹیوب کی رہنمائی کے جویاہوتے ہیںاو روہ ہمیں آسانی سے مل جاتی ہیں تو اس سے اور اچھا کیا ہوگا۔ مگر ساتھ ساتھ اگر ہم بطور شکریہ ان کے چینل کو سبسکرائب کریں ۔اگر نہیں تو لائک کا آپشن ضرور دبا دیں۔ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ گھر بیٹھے جو معلومات کا خزانہ ہمیں ملتا ہے ۔ وہ ماضی میں کہا ں تھا۔ ماضی کے لوگ جو آنکھیں موند کر جلدی سے زیرِ زمین سکون کی نیند سو گئے ۔وہ اگر بالفرض زندہ ہو جائیں اور اس دنیا کو اپنی نگاہوں سے ایک بار پھر دیکھ لیں تو مارے حیرانی کے پھر ان کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی تاب نہ لاکر پھر انتقال کر جائیں گے۔ اب ہمارا حال بھی تو آگے آنے والے زمانے میں ایسا ہی ہوگا ۔ جب ہم پر اگلی نسل والے ہنسیں گے ۔ جس موبائل پر ہم اتنا غرور کرتے ہیں ۔اس کی حقیقت ختم ہو کر رہ جائیں گی ۔ہماری اگلی نسلیں اپنے آبا کی اس موجودہ زندگی پر ہنس کر کہیں گے ۔ یار ہمارے بڑوں نے اس موبائل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ان کوکیا پتا کہ موبائل ایپ کے بعد دوسری ایب تو ایک بچوں کا ایک دفتر بن جائے گی۔ خدا جانے آنے والا زمانہ کیسا ہوگا۔ کیسے لوگ ہوں گے کیاکہیں گے کیا کریں گے۔ ابھی ٹیکنالوجی کی اس پٹاری میں جانے اور کیا ہے ۔ سائنس کے اس جادو ئی ڈبے میںاور کتنی روشنیوں کے تیر ہیں جو سیدھا آنکھوں میں آکر گھس جائیں گے۔ کس کس طرح سے آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی ۔ان چندھیا دینے والی روشنی میں ہمیں نئے سرے سے کچھ نظر نہیں آئے گا ۔ہم پھر سے بینائی کے طالب ہو جائیں گے۔بہر حال اس وقت تونیٹ کی وجہ سے ہم سے ہمارے اپنے دور ہو گئے ہیں ۔ جانے کیا سبیل ہو کہ پھر سے ملیں۔ یا شاید ہرآدمی کے جداجدا ہو جانے کی اطلاع ہے ۔کیونکہ جب نیٹ پرسب کچھ مہیا ہے تو گھر میں اکیلے سے رہنے والا اکیلاکہاںہوا۔خود صدرِ محفل خود شریک خود مہمانِ خصوصی خود ہی اکیلے میں اور پراسرار تنہائی میں سب کچھ ہو جائے گا۔