ماضی میں بھی اِس سلسلے میں کئی مرتبہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا لیکن ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ سخت فیصلوں کے باوجود صورتحال جوں کی توں برقرار بلکہ ہر تعلیمی سال کے آغاز پر زیادہ گھمبیر ہوتی محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف نجی ڈینٹل اینڈ میڈیکل کالجز کی اکثریت کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور اُن کی لالچ کو کسی کروٹ قرار نہیں اور دوسرا یہ نجی ادارے متحد ہو کر اپنے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کا راستہ روک لیتے ہیں یا عدالت اور ہر اُس محاذ پر سے دفاع کرنے میں دیر نہیں لگاتے‘ جہاں سے اِن پر اعتراض کیا جائے جبکہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے مقابلے صارفین (والدین‘ طلبہ اور تدریسی و معاون تدریسی عملے) نہ تو متحد ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس انصاف تک رسائی کےلئے معروف وکلا کی فیسیں ادا کرنے کےلئے کروڑوں روپے ہیں۔ پشاور کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) خیبرپختونخوا میں طب کی تعلیم سے متعلق زیرسماعت مقدمے میں نجی اداروں (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز) کی جانب سے مبینہ بے قاعدگیوں (کاروباری حکمت عملی پر مبنی طریقہ¿ واردات) پر غور ہو رہا ہے اور عدالت اِس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے کہ تعلیمی اخراجات کی مد میں من مانیاں‘ ذہانت‘ اہلیت اور قابلیت کی بجائے مالی حیثیت کے مطابق داخلے اور انتظامی و مالی امور میں موجود بے قاعدگیوں کی اصلاح کس طرح کی جائے۔ رواں ہفتے (3 مارچ کے روز) ہوئی سماعت کے دوران ایک موقع پر ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شمائل بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ”بعض نجی میڈیکل (اور ڈینٹل) کالجز داخلہ اہلیت کے لئے دیئے جانے والے ’20 نمبر‘ فروخت کرتے ہیں۔“ صوبے کے ’ایڈوکیٹ جنرل‘ کی جانب سے اِس بیان (حقیقت ِحال) کے بعد کسی دوسری دلیل یا ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور پورا مقدمہ (و معمہ) حل ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن عدالت ِعالیہ شاید کسی ایسے ’جامع نتیجے‘ پر پہنچنا چاہتی ہے جس میں داخلہ اہلیت کی فروخت اور داخلہ عطیات کی صورت ہونے والی باضابطہ و باقاعدہ بے قاعدگیوں کی مستقل بنیادوں پر راہ روکی جا سکے۔ ذہن نشین رہے کہ درخواست گزار طالبہ لائبہ جاوید کی مدعیت میں درج اِس مقدمے کو چیف جسٹس قیصر رشید اور جسٹس سیّد عتیق شاہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ سن رہا ہے جس نے مقدمے کی آئندہ سماعت ’25 مارچ‘ تک ملتوی کرتے ہوئے ’ایڈوکیٹ جنرل‘ کو تحریراً رپورٹ درج کرانے کے احکامات دیئے ہیں۔نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران دونوں فاضل جج صاحبان کے تاثرات اور سوالات (ریمارکس) سے عیاں ہے کہ عدالت عالیہ بحیثیت مجموعی نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کے انتظامی امور اور اُن کی نگران ادارے (پاکستان میڈیکل کمیشن) کی کارکردگی سے مطمئن نہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو اختیار کیوں دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس داخلے کے خواہشمند کو چاہیں اُس کی اہلیت میں ”20 نمبروں“ کا اضافہ کر دیں جبکہ یہ اختیار و اِستحقاق سرکاری میڈیکل اینڈ دینٹل کالجز کو حاصل نہیں؟ توجہ طلب ہے کہ اِنہی 20 نمبروں کی خریدوفروخت سے متعلق شکایات عام ہیں کہ بعض نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز نے داخلے کے خواہشمند ہر اُمیدوار سے لاکھوں روپے اضافی طلب کئے اور اِسے ’داخلہ عطیات‘ کی مد میں ’قانونی حق‘ سمجھا جا رہا ہے جبکہ یہ سراسر ناانصافی اور جرم ہے! عدالت کے سامنے جب ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کی جانب سے ”20 نمبروں“ کی فروخت سے متعلق شکایات کو حقیقت پر مبنی بیان کیا تو چیف جسٹس قیصر رشید کا یہ ردعمل خاصا غورطلب تھا کہ ”آخر یہ ’ظلم‘ کیوں روا رکھا گیا ہے؟“