قبرستان سے رشتہ

ہم انھیں گھر سے تو نکال دیتے ہیں مگر دل سے نکال نہیں پاتے‘برسوں ہمارے دل کی دنیا میں ان کے نام کا دیا اندھیری کٹیا میں جلتا رہتا ہے‘ہم صبح و شام نہ سہی مگر جمعرات‘جمعہ یا ہفتہ کے کسی دن بھی جاکر ان سے مل آتے ہیں۔ قبروں کے فریم کے اندر سجی ہوئی ان تصویروں کے تصور او ر ان کے ساتھ گزرے ہوئے شاندار ماضی کو نئے سرے سے ترو تازہ کر آتے ہیں‘دل کو ایک سکون پہنچتا ہے‘ جی چاہتا ہے کہ بندہ یہاں بیٹھارہے کیونکہ قبرستانوں کی فضاء اس شہرِ خموشاں کاماحول انتہائی خموش ہوتا ہے کیونکہ ہمارے قبرستان آبادی سے دور ہوتے ہیں۔ اگر اب آبادیاں جاکر ان تک پہنچ گئی ہیں تو یہ بات اور ہے۔وگرنہ تو اپنوں اور عزیزوں کی تدفین گھروں سے بہت دور ویرانوں میں کی جاتی ہے۔ان ویرانوں میں کھلے ہوئے پھولوں کی خوشبو ہمیں اپنے گھروں میں بھی آتی رہتی ہے۔جو ہمیں کشاں کشاں اس طرف لے کر جاتی ہے جو بچھڑ گئے ان کی مٹی کی ڈھیریوں کو ہاتھ لگا آتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں کی لمس سے اس مٹی کے ساتھ منسلک رشتہ کی ٹھنڈک ہماری روح میں اتر آتی ہے۔ان قبروں پر جا کر دعا کرنا بہت اچھا ہے۔وہی غم پھر سے تروتازہ تو نہیں ہو سکتا مگر دل کے زخم پر جیسے کوئی مرہم رکھ دیتا ہے۔یہ گھر سے نکلے ہوتے ہیں دل سے نہیں نکلے ہوتے۔ دل کی دنیا میں چلتے پھرتے رہتے ہیں۔کبھی خیال آتا ہے کہ کاش و ہ دور واپس آجائے۔مگر کہاں جو چلا گیا اس کو بھول تو نہیں سکتے۔ وہ ماضی جو ان کے ساتھ گزرا دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتاہے۔ہمارے ان پیاروں کی قبروں کوبعض افرادنے اپنی جائیدا د میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ افرادنوٹ کرتے رہتے ہیں کہ جس قبر کے پوچھنے والے نہ آتے ہوں اس کو ہڑپ کر لیتے ہیں‘جو لوگ قبرو ں کو بھی نہ چھوڑتے ہوں ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے‘ہمارے قبرستانوں میں ہیروئن پینے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ قبروں کا اپنا احترام ہے۔ قبرستانو ں کا اپنا وجود ہے۔ہر چند کہ یہ لوگ ہم میں نہیں۔ مگر ان کے قبرستان تو اسی شہر میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔اپنے عزیزوں اور پیاروں کی قبروں پر تو فاتحہ خوانی کے لئے ہم بچپن سے جا رہے ہیں۔ جو اس وقت خاک میں آرام کر رہے ہیں وہ بھی اسی طرح انھیں قبرستانوں میں اپنے پیارو ں کے وجود کے احساس سے ملنے یہاں آیا کرتے تھے۔یہی اس زمانے کا طور طریقہ ہے۔ یہی شیوہ ئابنائے روزگار ہے۔مگر ہمارے قبرستانوں کو رجھ کر پامال کیا رہاہے۔اندر لوگوں نے گھر بنا لئے ہیں۔ بلکہ وہاں جھولے بھی لگے ہیں۔ ہنڈولے میں بچے درخت کے ساتھ لگا گول جھولا جھولتے ہیں۔ہر چند کہ ان معصوموں کو کیا معلوم کہ قبر کیا ہوتی ہے اور اس میں کون سویا ہے۔ مگر ان کے بڑے جو ان کو ساتھ لاتے ہیں۔ان کو خیال نہیں آتا وہ ان قبرستانوں کے گرد دیوار چڑھا کر ان کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ بلکہ مرنے والوں کے لواحقین چندہ کر کے ایک آدھ سکیورٹی پر مامور ذی نفس کو بھی یہاں نگہبانی کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔بعض جگہ وارثوں نے او ربعض مقامات پر حکومتی نمائندوں نے قبرستانوں کے گرد چار دیواری بنادی ہے۔جب ہم ان قبروں کی خبر گیری کو نہ جائیں تو پھر یہ وہی موقع ہے جب غیر غماز اور بے فکرے اندر آکر ان قبروں کی آس پاس کی خالی جگہوں پر قبضہ جمالیتے ہیں۔اندر چرس چلتی ہے‘ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قبرستانوں کی خیر خبر لینے کو کو گاہے گاہے نہ سہی مگر کبھی کبھار ضرور جائیں۔تاکہ غیروں کو احساس ہو کہ ان کا پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔اب ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ اپنے قبرستانوں کی حفاظت کے لئے ان کے گرد چاردیواری چڑھا کر مین لوہے کے گیٹ کو تالا لگا دیتے ہیں حتیٰ کہ کسی غیر کو یہاں دفنانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ حالانکہ جب بندہ مر جائے تو اس کا رشتہ معاشرت سے کٹ جاتا ہے۔ ہمارے لئے ہمارے پیاروں کی قبریں تو دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔مگر جہاں چار دیواریاں نہیں وہاں قبریں محفوظ نہیں رہتیں۔گل بہار کی جانب کے رہائش رکھنے والوں نے اپنے قبرستانوں کے چاروں اطراف دیواریں چڑھا دی ہیں۔ یہی شیوہ دوسرے علاقے کو لوگوں نے بھی اپنا یا ہے‘ جس کی وجہ سے ان لوگوں کی قبریں محفوظ ہو گئی ہیں‘بعض قبرستانو ں کا ایک پورا انتظام تو بیس تیس سالوں سے اپ ڈیٹ ہے۔اتنا کہ قبرستان کی چار دیواری میں جانے کے لئے دروازے پر لگی گھنٹی بجائیں گے۔ تصدیق ہوگی تو اندر دعا کے لئے بلائیں گے۔اس کی بہت سی زندہ مثالیں ہیں۔