سینٹ انتخابات کے عمومی و مجموعی نتائج اگرچہ زیادہ خلاف توقع نہیں تھے لیکن تحریک انصاف کے لئے قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے باوجود اسلام آباد سے نشست پر شکست سے زیادہ ندامت نے ایک ایسی صورتحال اور دباؤ پیدا کیا ہے جس سے نکلنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا جس کی حزب اختلاف کی جانب سے مسلسل یاد دہانی کروائی جا رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بطور خاص وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسمبلیاں توڑنے کا وقت آ گیا ہے جس سے متعلق بلاول نے وزیراعظم کو ان کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر سینٹ میں اسلام آباد سے شکست ہوئی تو وہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔“ بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ ہار چکے ہیں اور ہم جیت چکے ہیں۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ اب وزیر اعظم کومستعفی ہونے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ جہاں ایک جانب حزب اختلاف وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے وہیں عمران خان کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کا یہ فیصلہ ایک نپا تلا قدم ہے؟ اِس بارے میں سیاستدانوں‘ سیاسی تجزیہ کاروں اور عوام کی رائے توجہ طلب ہے کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات بھی یقینا ہوں گے اور بنیادی بات یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم ایک سیاسی بند گلی کی طرف جا رہے ہیں‘ جو انتہائی تاریک بھی ہے اور جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا‘ جہاں دوست اور دشمن کی پہچان ممکن نہیں۔حزب اختلاف کا مؤقف ہے کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار نہیں بلکہ آئین‘ قانون اور قاعدے کے تحت صرف صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔ حزب اقتدار کا مؤقف ہے کہ تحریک انصاف کے لئے شکست نہیں بلکہ عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ اہم ہے اور اب وہ اس کا بدلہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم پر اعتماد کے ووٹ کی صورت میں دیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں اور امید یہی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لینے سے متعلق فیصلے سے سینٹ میں ہونے والی شکست کے اثرات کو کم کیا جا سکے گا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگرچہ اِس قسم کا کوئی دوسرا فیصلہ نہیں ملتا لیکن سینٹ انتخابات و نتائج کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے لیا گیا یہ ایک نہایت ہی مناسب‘ درست اور بروقت فیصلہ ہے کیونکہ اگر وہ یہ فیصلہ نہ لیتے تو پھر حزب اختلاف کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونی تھی جس سے پھر وہ (وزیر اعظم) خود عدم استحکام کا شکار ہوتے اور ملک بھی عدم اعتماد کا شکار ہوتا چونکہ اعتماد کا ووٹ شو آف ہینڈز کے ذریعے سے ہو گا تو یہ سینٹ کی طرح کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے اور تحریک انصاف کے جن لوگوں نے سینٹ میں اپنی وفاداریاں کسی وجہ سے تبدیل کی ہیں وہ کبھی بھی عمران خان کے سامنے کھل کر نہیں آنا چاہیں گے لیکن اگر وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ خفیہ طریقے سے ہو‘ تو سینٹ انتخابات کی طرز پر یہ تحریک انصاف کے لئے مشکل اور پریشانی کا باعث ہو سکتا تھا۔ تحریک انصاف سینٹ انتخابات کی بھٹی سے سرخرو ہو کر نکلی ہے اور اِس کے فیصلے زیادہ نپے تلے (سوچے سمجھے) دکھائی دے رہے ہیں جو سینٹ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جواب دینا بھی ایک ایسا ہی درست و بروقت فیصلہ ہے جس کے باعث حزب اختلاف کے احتجاج میں رہی سہی جان بھی نکل گئی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ حکومتی جماعت کے پاس عدم اعتماد ہی واحد راستہ ہے بالخصوص سینٹ میں اپ سیٹ کے بعد اعتماد کا ووٹ حکومت کے اعتماد کو بحال اور پارٹی کی گرفت کو اُن داخلی عناصر کے خلاف مضبوط کر سکتا ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے فیصلوں سے اختلاف کیا ہے لیکن تحریک اعتماد میں کامیابی کے بعد بھی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری رہے گا‘ جس سے پیدا ہونے والی صورتحال مشکل ہے۔ اصل ضرورت تحریک انصاف کی صفوں میں موجود اُن عناصر کی کھوج اور علیحدگی ہے جو تحریک انصاف کے اندر رہتے ہوئے اِس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور اگر سینٹ انتخابات میں یہ عناصر تحریک کے لئے ندامت کا باعث بنے ہیں تو آئندہ عام انتخابات کے موقع پر اِن پر اعتماد کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اُس اعتماد کی بحالی بھی ضروری ہے جو پارٹی کے داخلی حلقوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اور یہ گھنٹی سینٹ کے حالیہ انتخاب کی صورت بج چکی ہے۔