یقینی جیت تھی۔ وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کی قومی اسمبلی ایوان میں اکثریت پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی ہے تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں اسلام آباد سے سینٹ انتخاب کے نتیجے کو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد قرار دیتے ہوئے پہلے ہی اپنی کامیابی کا اعلان کر چکی ہیں لیکن پارلیمانی نظام میں حسب ِآئین تحریک انصاف کی سیاسی و انتظامی حیثیت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوئی ہے اور جو کچھ بھی ہوا ہے حزب اختلاف کی توقعات اور منصوبہ بندی کے برعکس ہے جنہیں اب جوڑ توڑ کی سیاست کے علاوہ حکومت کو پریشان کرنے کے نئے طریقے آزمانا پڑیں گے۔ اِس پوری صورتحال میں تحریک انصاف پہلے سے زیادہ سیاسی طور پر محتاط و متحد دکھائی دے رہی ہے اور وفاقی دارالحکومت کی سینیٹ نشست پر غیرمتوقع شکست کو کامیابی میں تبدیل کرنے کےلئے بھی ایک حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسحاق ڈار کی سینیٹ رکنیت کالعدم قرار دینے اور اُن کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے انتخاب کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے عرصہ تین سال سے خودساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ چھ مارچ کو اسلام آباد کی نشست پر اپ سیٹ شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان پر قومی اسمبلی کے 178اراکین نے اعتماد کا اظہار کیا جبکہ اُنہیں ایوان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے 172ووٹ درکار تھے اور خاص بات یہ بھی ہے کہ انہیں اِس مرتبہ قومی اسمبلی ایوان سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔عمران خان جولائی دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ سے 176اراکین کا اعتماد حاصل کر کے وزیراعظم بنے تھے اور حکومت کے تیسرے سال جب اُنہیں دوبارہ پارلیمنٹ کے ارکان کا اعتماد حاصل کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو کاغذ پر حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 181 جبکہ اپوزیشن کے 161ارکان ایوانِ زیریں (نیشنل اسمبلی) کا حصہ ہیں لیکن اِس عددی برتری کو ثابت کرتے اعدادوشمار اُس وقت بے توقیر ہوئے جب اسلام آباد کی سینٹ نشست کا نتیجہ سامنے آیا جہاں حکومتی امیدوار کو 164 ووٹ اور حزب اختلاف کے امیدوار کو 169 ووٹ ملے لیکن عمران خان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر ثابت کر دیا کہ اُنہیں قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ اگر آئین کے آرٹیکل 63اے (ون) (بی) کی روشنی میں اعتماد کا ووٹ لینے میں وزیراعظم عمران خان کو کوئی مشکل درپیش نہیں تھی کیونکہ اگر کوئی رکن ’اعتماد کا ووٹ‘ دینے کے مرحلے پر حیل و حجت کا مظاہرہ کرتا تو اُس کی اسمبلی رکنیت ختم ہو سکتی تھی۔ اعتماد کے ووٹ کا مرحلہ سادہ و آسان لیکن بامعنی عمل ہے۔ پارلیمان کے ذریعے اراکین کو کسی منتخب قانون ساز رکن (ایم این اے) کو وزیراعظم بنانے یا برقرار رکھنے پر اپنا اعتماد ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وہ رکن ’وزیر اعظم‘ کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔ وزیراعظم کی پانچ سالہ آئینی مدت کے دوران اُسے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عہدے سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی وزیراعظم کو اپنے دورِ اقتدار میں ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا مرحلہ درپیش ہوا ہو اور نہ ہی اعتماد کا ووٹ مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ سیاسی نظام میں اِعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے تو کیا وزیراعظم کے ’اعتماد کا ووٹ‘ لینے کے بعد جاری سیاسی بحران تھم جائے گا؟ کیا حزب اختلاف کی جماعتیں ہار مان لیں گے اور اُن کےلئے اعتماد کے اِس ووٹ کی وہی اہمیت ہے جیسا تحریک انصاف یا اِس کی اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں؟پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثال موجود ہے کہ پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ دوبارہ لینے سے سیاسی کشیدگی ختم نہیں ہوتی۔ ستائیس مئی اُنیس سو ترانوے کو جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کےلئے رجوع کیا تھا تو ایک سو تیئس ارکان کی حمایت سے اُنہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ مذکورہ کاروائی قومی اسمبلی کے ضابطہ دوسوپچاسی کے تحت ہوئی تھی جس میں ہاتھ کھڑے کر کے اعتماد کا ووٹ دیا گیا تھا۔ ماضی (اُنیس سو ترانوے) اُور حال (دوہزاراکیس) کا موازنہ کیا جائے تو ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے طریقے میں کچھ فرق ضرور آیا ہے لیکن بنیادی مقصد وہی ہے۔ موجودہ قواعد کے مطابق آئین کی دفعہ 91شق 7کے تحت ہو رہی ہے جس کے مطابق اعتماد کا ووٹ اُس صورت میں لیا جاتا ہے جب صدر مملکت کو اعتماد نہ رہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ تحریک انصاف نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے مخالفین کے منہ بند کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت ایک ایسے مسلسل اختلاف کانام ہے‘ جس کے بنیادی اصول و قواعد ہی یہ ہے کہ حکومت کے ہر کام پر نکتہ چینی اور ہر فعل سے اختلاف کیا جائے اور جب تک یہ ’اختلافی و عمومی طرزعمل‘ تبدیل نہیں ہوگا اُس وقت تک اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔