نیا زمانہ ہے۔ہر چیز نئے سرے سے نئی ہورہی ہے۔پرانی روشیں ترک کی جا رہی ہیں ۔ پرانے جام توڑے جاتے ہیں ۔طور طریقے بدل رہے ہیں۔ سوچ میں تبدیلیاں ہیں۔کبھی تو اندر وہی کچھ ہے اور باہر سے خول بدل رہاہے ۔کبھی سب کچھ اندر باہر ہر طرف سے تبدیل ہو رہاہے ۔یہ دنیا کیاتھی او رکیا ہوگئی ۔” کیا سے کیا ہوگیا دیکھتے دیکھتے“۔جانے تبدیلی کا یہ عمل کہاں جا کر پہنچے گا۔ رک تو نہیں سکتا ۔ کیونکہ سفر انسان کا ہوتو ختم ہو جاتا ہے ۔ مگر یہ تو دنیا ہے جس میں انسان کی چنداں اہمیت نہیں ۔ دنیا و کائنات میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کل جو کچھ تھاوہ آج نہیں رہا۔ جو آج ہے وہ آنے والے کل میں نئی شکل نیا روپ اور نیا بہروپ دھار لے گا۔اتنا کہ اب آئینے میں اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی ۔پھر زندگی کا سفر مزید آگے جائے گا تو پھر بھی اپنی اپنی شکلوں کی پہچان مشکل ہو جائے گی۔دنیا و کائنات کی یہ تبدیلی فطرت کی سرشت میں شامل ہے ۔نیچر لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے۔ایک طالب علم کو دیکھا ۔اس سے ملا جلا ہوں۔ اردو میڈیم کی نویں کلاس کا طالب علم ہے ۔ انگریزی فر فر بولتا ہے ۔مگر بولتا بھی یوں کہ جیسے انگریز اپنے خاص گھریلو انداز سے بولتے ہیں ۔اس کا سکول بھی تو کوئی مشہور پرائیویٹ سکول نہ تھا ۔پوچھا تو گھر میں کوئی اور فرد بھی پڑھا لکھا نہیں ۔اس کی قابلیت قدرتی ہے ۔میں نے اسے ٹٹولا۔ اس کی سوچ بھی الگ انداز کی ہے ۔ہر چند کہ بچگانہ ہے مگر تبدیل شدہ ہے ۔آج کل بچوں کی سوچ میں بھی نیا پن آیا ہے۔وہ بجلی مکینک کو ڈھونڈنے ہمارے گھر کے دروازے پر آیا تھا۔اپنے گھر کی بجلی تاروں کی مرمت کروانا چاہتا تھا۔ بجلی کامستری بھی تو کامرس کالج میں تھرڈایئر کا سٹوڈنٹ ہے ۔ مدثر نے مجھ سے کہا سر جی یہ لڑکا بہت زبردست انگریزی بولتا ہے۔میں نے توجہ نہ دی ۔ کیونکہ گا¶ں جیسے ماحول میں اس قسم کے بچوں کا پایا جانا مشکل ہے ۔میں سمجھا شاید بجلی مین گپ شپ لگا رہاہے ۔مگر جب مجھے لڑکے کی طرف دھیان ہوا تو میں نے دو ایک انگریزی جملے جھاڑ دیئے۔میرا مقصد اس کو ٹیسٹ کرنا اور پھرولنا تھا۔ کیا واقعی وہ انگریزی بول بھی سکتاہے۔اس نے کھرے کھرے جوابات دیئے۔میں حیران ہوا۔اتنا سا بچہ اور عام سی سکول کا طالب علم۔ مگر اتنی نکھری اور نیاری انگلش اس کے نوک ِزباں تھی۔میں نے کہا بڑے ہو کر کیا بنو گے ۔کہنے لگا اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالوں گا۔ کیا مطلب ۔کہنے لگامیں وزیرِ اعظم بنوں گا۔آج کل کے بچوں کی آنکھیں بہت کھل گئی ہیں۔ ذہن بہت کشادہ اور سوچ بہت وسیع ہو چکی ہے ۔وہ نئی نئی باتیں کرتے ہیں ۔بہت کچھ الگ سا سوچتے ہیں۔میں نے کہا ملک کا اتنابڑا عہدہ حاصل کر کے تم کیا کرنا چاہتے ہو۔ اس نے کہا میں تیسری عالمگیر جنگ کروا¶ں گا۔ اب کے تو میری ہنسی چھوٹ گئی ۔مگر فوراً احساس ہوا کہ مجھے ایسا نہیںکرنا چاہئے۔یہ تو اگلے کا حوصلہ توڑنے والی بات ہے ۔اگر وزیرِ اعظم بنتاہے تو بنے ہمارا کیاہے۔مگر پوچھا تھرڈ ورلڈ وار کیوں کروا¶ گے۔ ا س نے استقلال والے عز م سے جواب دیا کہ کشمیر کامسئلہ حل نہیںہورہا۔مسلمانوں کو دنیابھر میں نیچا دکھایاجا رہاہے۔فلسطین کے مسلمان بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔میں نے ان کو لے کر ان کے دشمنوں سے لڑناہے۔اب میں نے غیر زبان کا سٹارٹ تو لے لیا تھا مگر زیادہ دیرتک اس زبان میں باتیں کرنا اپنے بس سے باہر تھا۔میں پشتو میں واپس آ جاتا او روہ انگریزی سے پیچھے نہ ہٹتا۔ اس نے اپنا گروپ بھی بنا رکھا ہے ۔کہتا ہے میں اپنی پارٹی بنا¶ں گا۔ بلکہ اسی طالب علموں کو اس نے اپنا ہم خیال بنا رکھا ہے۔میرے تو ہوش اڑ گئے۔کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔چھوٹے نواب کے لچھن کچھ ٹھیک نظر نہیں آ رہے تھے۔ سوچا کہ اس عمر میں تو اکثر سٹوڈنٹ بڑے ہوکر ڈاکٹر بن جانے کاخیال ظاہرکرتے ہوئے ایک عز م کو دہراتے ہیں۔ کوئی انجینئر کوئی وکیل کوئی کیا اور کوئی کیا بننا چاہتا ہے ۔مگر یہ ظالم سیاست میں آناچاہتا ہے۔ہماری سیاست پہلے کون سی اچھی ہے کہ اب جو یہ آئے گا تواس کے آنے سے جمہوریت کی بھینس کو کھینچ کھینچ کر پٹری پر لانا پڑے گا۔او مائی گاڈ میرے منہ سے نکلا ۔تم کس راستے پر نکل کھڑے ہوئے ۔بیٹا اپنی سوچ میں تبدیلی لا¶۔ماں باپ کا سہارا بنو۔مگر وہ ایک ہی ضد پر قائم تھا کہ اسے سیاستدان بننا ہے ۔خیر اپنی اپنی سوچ ہے ۔ہم ا س میں ہاتھ نہیں مارنا چاہتے ۔ایک آدمی سیاست کی گرما گرمی میںاگر اپنے ہاتھ جلانا چاہتا ہے تو پھر اس کو کتنی دیر تک روکے رکھا جا سکتا ہے۔جا¶ بھائی نئے نئے شعبوں کو تسخیر کرو۔ ہم نے اب ڈاکٹر انجینئروکیل پروفیسر بن کر کیا کر لیا۔ملک کی قسمت کی لکیروں میں تبدیلی نہ لا سکے تو چلو ایک تجربہ او رسہی ۔اس کو بھی آزما کر دیکھ لیں گے شاید یہی ہمیں ہمارے غموں اور مسئلے مسائل سے نجات دلا دے ورنہ اب تو یہ حال ہے کہ ملک کی پروا کسی کو بھی نہیں ہے ۔اپناالو سیدھا ہو جائے تو ہو جائے اچھی بات ہے مگر دوسرے کے الو کو ٹیڑھا کر دیں بلکہ اٹھا کر زمین پرپٹخ دیں۔یہی ان کی سوچ ہے ۔