قومی اسمبلی سے ”اعتماد کا ووٹ‘ ‘حاصل کرنے کے سیاسی و غیرسیاسی محرکات‘ وجوہات اور ثمرات سے اگر انتخابی نظام میں اصلاحات اور مہنگائی و بیروزگاری جیسے تین بنیادی کام نہیں ہوتے تو عام آدمی کے لئے پارلیمانی نظام اور اِس نظام سے جڑے کرداروں میں شامل کسی کامیابی اور ناکامی کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ ہر انتخاب کی طرح ’اعتماد کے ووٹ‘ کا بھی ایک سیاسی پہلو اور اِس میں سیاسی فائدہ پنہاں ہے‘ جس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ پنجاب اور بلوچستان میں بھی حکومت کو خطرہ ہوگا کیونکہ وہاں عثمان بزدار ایک ایسے وزیر اعلیٰ ہیں‘ جن کی کمزوریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور دوسری جانب بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جمعیت علماءاسلام (ف) حکومت کو آنکھیں دکھا رہی ہیں۔ درحقیقت آصف زرداری اور نواز شریف عمران خان کی حکومت ختم نہیں کرنا چاہتے لیکن اِسے کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی سیاسی تنازعات اور سیاسی عدم استحکام کا دور ختم نہیں ہوگا۔ سینٹ انتخابات کے بعد حزب اختلاف کی نظریں چیئرمین سینٹ کے انتخاب پر ہیں اور وہ سینٹ میں اپنی معمولی عددی برتری کی بنیاد پر چیئرمین لانا چاہتے ہیں۔ عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے سخت گیر مو¿قف سے پیچھے ہٹی ہے اور اِس پیشرفت کا مقصدسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہے لیکن حزب اختلاف کا ”بڑا ہدف‘ ‘سینٹ چیئرمین کے انتخابات ہیں اور اس کے لئے یوسف رضا گیلانی ہی قوی امیدوار ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جس طرح حفیظ شیخ ایک غیر منتخب رہنما تھے اور ان کے پاس لوگوں کی اتنی حمایت بھی نہیں تھی بالکل اسی طرح صادق سنجرانی کو دوبارہ منتخب کرنا مشکل ہوگا۔ حزب اختلاف چاہتی ہے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخابات اور آئندہ کے سیاسی واقعات میں تحریک انصاف کو سٹیبلشمنٹ سے دور کرے ۔ اعتماد کے ووٹ سے وزیرِاعظم نے خود کو محفوظ تو کرلیا ہے لیکن سینٹ میں ان کی جماعت محفوظ نہیں رہی۔ غالب امکان یہی ہے کہ چیئرمین سینٹ کے لئے ہونے والے انتخاب میں حزب اختلاف کی جیت ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت کے ہاتھ سے چیئرمین سینیٹ کی نشست چلی جاتی ہے تو حکومت کے لئے قانون سازی میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان جس آئی ایم ایف پروگرام میں جانے والا ہے اس میں موجود شرائط کے حوالے سے کچھ قانون سازی کی ضرورت ہے اور حکومت کا یہ خیال تھا کہ جب سینٹ میں ان کی اکثریت ہو جائے گی تو قانون سازی بھی کرلی جائے گی لیکن اگر سینٹ فیصلوں پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا غلبہ ہو جاتا ہے تو یہ قانون سازی بہت مشکل ہوجائے گی اور حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چیئرمین سینٹ انتخاب کے بعد ڈسکہ میں ضمنی انتخاب ہوگا اور اگر ڈسکہ میں نواز لیگ جیت جاتی ہے تو اس کا فائدہ بھی ’پی ڈی ایم‘ کو ملے گا۔ ڈسکہ انتخابات کے بعد حزب اختلاف کی نظریں لانگ مارچ پر ہوں گی اور اگر ڈسکہ میں نواز لیگ جیت گئی تو ممکن ہے کہ پی ڈی ایم مزید شدت کے ساتھ لانگ مارج کی تیاریاں کرے اور یہی وجہ ہے کہ اگلے کچھ ہفتوں میں ملکی سیاست میں ابال آنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔