ہم بھی اس شہرِ پشاور کے روڑے ہیں ۔ ایک جگہ ٹھوکر لگتی ہے تو دوسری جگہ جا پڑتے ہیں۔ وہاں سے تھپڑ لگتا ہے تو کہیں اور لڑھک جاتے ہیں ۔سارا دن شہر کی سڑکوں پر آوارہ ناشاد و ناکارہ گھومتے رہتے ہیں۔ بال کٹوانے تھے۔علاقے کی حجام کی دکان کے اندر دو بندے فالتو بیٹھے ہوئے دیکھے تو صبر نہ ہوا اوربائیک اٹھائی ۔ پھرقریب قریب کی درجنوں دکانوں کو چیک کرتے گئے۔مگر ہر جگہ رش تھا ۔ کل چھٹی تھی اور آج شام لوگوں نے شادی بیاہ پر جانا تھا۔ ہمیں بھی کچھ اسی طرح کی مصروفیت نے آن گھیرا تھا۔پھر دنیا دیکھی ہے ۔ اتنی سی عمر میں وہ کچھ دیکھ لیا کہ جی میں آتا ہے دیکھا ہی کیوں ۔اس لئے کہ اچھا نہیں دیکھا۔ مگرابھی تو ہم نے دیکھا ہی کیا ہے ۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔کہتا تو ہوں کہ کبھی ہم بھی خوبصورت تھے۔ مگر پیار کرنے والے فیس بک پر ہماری نو عمری کی اس تصویر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ نہیں جی آپ تو اب زیادہ خوبصورت ہیں۔ کوئی کہتا ہے آپ تو اب بھی خوبصورت ہیں ۔ مگر رائے ہے ۔ ہرایک کی جدا ہے ۔پھر کسی کی رائے سے کسی اور کا اتفاق کرنا تودور کی بات ہے خودہمارا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ایک حجام کی دکان پر اگرچہ رش تھا مگر ہم نے ویسے ہی بریک لگائے سڑک پر سے آواز لگا کر پوچھا نمبر مل جائے گا۔ اس نے ہاں میں سرہلایاآجائیں۔ ہم بھی گھوڑے سے اترے اور پاس ہی باگیں باندھ دیں ۔اندر جا کر معلوم ہوا کہ رش اس لئے نہیں تھا کہ وہ لوگ حجامت بنوانے آئے تھے۔ بلکہ یہ محلے کے بے فکرے لڑکے تھے۔جو خواہ مخواہ کی بھیڑ بنا کر اندر موجود تھے۔ اپنی اپنی باری پر انھوں نے خط بنالیا تھابال کٹوا لئے تھے ۔اب ہلڑ بازی میں مصروف تھے ۔ ان میں سے ایک تو آئینے کے آگے سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔ پوچھو بلکہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ خود نظر آتا تھابلکہ ایک کی جگہ دو دو بار دکھائی دے رہاتھا۔ ان میں سے تو ایک جس کی نئی نویلی مونچھیں نکلی تھیں اپنی مونچھوں کو آئینے پر جھک کر بلاضرورت اور دیر تک تا¶ دے دے کر ٹیڑھا کرنے میں مصروف تھا۔ جو تو اول نظر ہی نہیں آ رہیں تھیں۔جیسے پنسل سے لکیر سی کھینچ دی گئی ہو۔باقی باہر جاتے کبھی اندر آتے ۔ ایک تماشا بنارکھا تھا۔ بال کاٹنے والے کے ہاتھ میں بھی اس وقت استرا پکڑا ہوا تھا اور وہ بھی ہماری ہی اوور ہالنگ صفائی اور ستھرائی بلکہ کٹائی میں مصروف تھا۔ حجام کو ایک دھکا لگنا تھااور ہمیںلہولہان ہو جاناتھا۔ ہمار ے خون میںبھی ان کی اس دھکم پیل اور شور شرابے سے ابال اٹھ رہے تھے۔ سوچا ابھی آواز دیتا ہوں کہ بیٹا ذرا گاہک کا خیال کرو کہیں بلیڈ کی نوک تک ہمیں چھو گئی تو ناحق کے چار ٹانکے لگوانے پڑ جائیں۔پھر شوگر کے زخم ہیں بھرنے میں دیر لگ جائے گی۔مگر بیٹا کہنے میں مجھے ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔وہ ہر بات سے بے نیاز اور ہر انجام سے بے خبر چھچھورے اپنی بدتمیزیوں میں مصروف تھے۔ اس طرح کہ ہمیں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ ہم ان کی ان حرکتوں پر اعتراض کرتے۔کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں ماننے والے تھے۔ پھر ہم اپنے قیمتی الفاظ یوں ہوا کا رزق کیوں بنا دیں۔ سو لبِ شکایت کھولنے کی ضرورت ہی کیاتھی۔ مجھے ان سے ڈرنہیں لگ رہاتھا ۔مجھے خوداپنے سے خوف آنے لگاتھا۔کیونکہ اس بڑے میاں کو کبھی کبھی جوش آ ہی جاتا ہے ۔ دو تین سالوں میں ہمارا بھی میٹر گھوم جاتا ہے ۔مگر یہاں دماغ نہ ہی گھومے تو بہتر ہے کہ یہاں سر پھروں کے لئے آلاتِ ضرب چاقو چھریاں بہت زیادہ موجودتھے۔ ذرا سی بے صبری کوئی بڑی مصیبت مفت میں مول لے سکتی ہے ۔ ایک تو فون پر لگا ہوا تھا کہ کھانا تیار کر اﺅ ہم چار بندے آ رہے ہیں۔پھر ہنسی اورٹھٹول۔کبھی بجلی کے سوئچ پر سے بال نوچنے اور کاٹنے کی مشین اتار کر وہاں اپنے موبائل کا چارجر لگا لیتے۔میں اپنے آپ کو کوسنے دے رہاتھاکہ یہاں آیا کیوں ۔ گھر کے پاس والی دکان پرصبر کر کے بیٹھ جاتا۔ دو بندوں کے بعد نمبر آ ہی جاتا۔