اعتماد کے بعد۔۔۔

قومی اسمبلی میں ہفتے کے روز وزیراعظم عمران خان نے 178 اراکین کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ وہ بحیثیت وزیراعظم ایک نیا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے اب کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے؟ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہ تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کی جیت اور حفیظ شیخ کی شکست کے بعد حزب اختلاف نے کہا کہ وزیراعظم اکثریت کھوچکے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں اگر حزب اختلاف کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوچکی ہوتی تو پھر ارکان خفیہ رائے دہی کے ذریعے ووٹ دیتے جس میں ممکن تھا چند ارکان، جو حکومت کے بقول حزب اختلاف سے ملے ہوئے تھے، وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈال کر وزیراعظم کے خلاف اعتماد کی تحریک ناکام کردیتے۔ لیکن وزیراعظم نے خود اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا جس میں ارکان اعلانیہ رائے دیتے ہیں۔ یہ ان کی جانب سے ایک ماسٹر سٹروک تھا۔ اعتماد ووٹ کے اجلاس میں حزب اختلاف کی عدم شرکت اگرچہ غیر منطقی مگر بہرحال ایک مثبت اقدام تھا۔ ظاہر ہے وہ اگر احتجاج کرتی تو اعتماد کی ووٹنگ کی کاروائی آسانی سے نہ ہو پاتی۔ تاہم اس نے اعتماد کے ووٹ کی کاروائی کو غیرآئینی قرار دے کر مسترد کردیا۔ اس کے رہنما کہتے ہیں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد وہ مناسب وقت پر سامنے لائیں گے۔ اگرچہ وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول اعتماد کے ووٹ کے بعد حزب اختلاف چھ مہینے تک عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں کرسکتی لیکن موجودہ آئین کے اندر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ اورجلد یا بدیر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آجائے گی۔کہا گیا تھا کہ پیسوں کے عوض یا حزب اختلاف کی جانب سے آئندہ پارٹی ٹکٹ دینے کے بدلے چند ارکان اندر سے حزب اختلاف سے مل چکے ہیں۔ ان افواہوں کو تقویت وزیر اعظم اور ان کے وزراءکی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سے بھی مل گئی تھی۔ کیا وزیر اعظم عمران خان ان ارکان کے خلاف کوئی اقدام کریں گے۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان افراد کو بے نقاب کرے۔ ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اگر ووٹنگ خفیہ نہ ہوتی تو انہیں اپنا ضمیر بیچنے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کا پتہ چل جاتا لیکن وزیراعظم اگر خود چاہیں تو بھی ایجنسیوں کی مدد سے معلومات لے کر ان کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیاجاتا تو چند روز بعد سینٹ چیئرمین کے انتخابات میں امکان ہے وہ پھر وہی کچھ کریں گے جس کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ بظاہر تو دکھائی دے رہا ہے جن لوگوں نے سینٹ کے حالیہ الیکشن میں پارٹی کو دھوکا دیا ان کے لئے ”معاف کرو اور بھول جاو¿“ کی پالیسی اختیار کی جائے گی ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اپوزیشن کا احتجاج زیادہ بڑھا یا ان کی پنجاب، سینٹ یا قومی اسمبلی میں کامیابی یقینی نظر آئی تو وزیر اعظم صدرمملکت کو قومی اسمبلی برخاست کرنے کا مشورہ دیں یا استعفٰی دے دیں۔ پی ٹی آئی کا پھر بیانیہ یہ ہوگا کہ اپوزیشن این آر او مانگتی تھی جو ہم دینا نہیں چاہتے تھے تو ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا اس لئے ہم نے اصولوں کی خاطر اقتدار چھوڑ دیا اور عوام سے مکمل اکثریت لینے کے لئے آئے ہیں‘ یہ کارڈ ممکن ہے پی ٹی آئی کو انتخابات میں کچھ فائدہ دے جائے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ حکومت میں رہیں یا نہ رہیں کسی ”چور اور ڈاکو“کو نہیں چھوڑیں گے اور یہ کہ وہ قوم کو ان کے خلاف باہر نکالیں گے۔ واضح رہے پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نواز حکومت کے دوران مہینوں سڑکیں بند کی تھیں، ریڈ زون میں دھرنے دیئے تھے، عوام کو سڑکوں پر لاکر بھرپور احتجاج کیا گیا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ حکمران عمران خان کے برعکس اپوزیشن کے عمران خان زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ آنے والے وقتوں میں ملک میں سیاسی نفرت، محاذ آرائی اور عدم استحکام بڑھ جانے کے خدشات واضح دیکھ جاسکتے ہیں۔ جس کو روکنے کے لئے ترجیحی بنیادوںپر اقدامات کرنے ہونگے۔ افسوس ہے کہ ہمارے رہنما نوجوانوں کو اپنے مفاد کے لئے احتجاج کا عادی بناکر ان کے ذہنوں میں زہر بھر چکے ہیں۔ جب ایک پارٹی کے کارکنان مخالف پارٹی کے رہنماو¿ں کی پریس کانفرنس کے وقت شورشرابا کریں، ان پر آوازیں کسیں بلکہ ان میں موجود خواتین سے بدتمیزی کریں تو یہ انتہائی افسوسناک اور خطرناک بات ہے‘ دہرے طرزعمل اور چنیدہ اخلاقیات نے بھی ہماری سیاست کو آلودہ کردیا ہے۔ ظاہر ہے غلطیاں ہر ایک سے ہوئی ہیں۔ پھر حکومت اور حزب اختلاف دونوں جمہوری نظام کے لازمی جزو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو ختم نہیں کرسکتا۔ پھر اپوزیشن والے کروڑوں پاکستانیوں کے نمائندے ہیں اور وزیراعظم پوری قوم کے سربراہ ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ سب رہنما ملک اور جمہوریت کے مفاد میں فیصلہ کریں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بات کرتے وقت اپنے الفاظ اور انداز دونوں کو مناسب، متوازن، باوقار اور شائستہ رکھیں گے۔ ملک کو درپیش مسئلوں کا حل کسی ایک کے بس کی بات بھی نہیں۔ احترام کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی، ہیجان کی سیاست کا خاتمہ، قومی مفاہمت اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے قومی ڈائیلاگ ضروری ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو فیٹف، احتساب ، انتخابی اصلاحات، سینٹ ارکان و چیئرمین کے طریقہ ہائے انتخاب وغیرہ پر اتفاق رائے سے قانون سازی اور کام کرنا چاہئے۔