کورونا وبا اور موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کا تحفظ متاثر ہوا ہے‘ جس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہاں خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لئے اقدامات کریں۔ اِس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ہر سال 90 کروڑ ٹن سے زیادہ خوردنی اشیا ء ضائع ہو جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماحول سے متعلق پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس یعنی کھانے کی اشیا ء ضائع کرنے کی فہرست میں بتایا گیا ہے کہ دکانوں‘ گھروں اور ریسٹورنٹس میں موجود سترہ فیصد کھانا کوڑے دانوں کی نذ رہو جاتا ہے اور اس میں سے ساٹھ فیصد شرح گھروں میں ضائع کئے جانے والے کھانے کی ہے تاہم کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کورونا وبا ء کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے چونکہ لوگ گھروں میں زیادہ رہے اِس لئے کھانا بھی کم مقدار میں ضائع ہوا ہے اور ایسے ممالک کی فہرست میں برطانیہ شامل ہے۔دنیا میں غذائی بحران (اشیائے خوردونوش کی قلت) ایک عالمی ایسا مسئلہ ہے جس پر خاطرخواہ سنجیدگی سے غور نہیں ہو رہا۔ ترقی یافتہ ممالک کے باشندے جن کی قوت خرید ترقی پذیر ممالک سے نسبتاً زیادہ ہوتی ہے وہ خوراک کو سب سے زیادہ ضائع کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ عالمی مسئلہ‘ ماضی میں لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ہر سال 923ملین ٹن خوارک ضائع کئے جانے والے کھانے کو کم از کم چالیس ٹن کے دو کروڑ تیس لاکھ ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے‘ یہ اتنے زیادہ ٹرک ہیں کہ انہیں اگر قطار میں کھڑا کیا جائے تو یہ زمین کے گرد سات چکر لگا دیں گے۔ تصور کریں کہ ایک طرف تو کروڑوں ٹن کھانا ضائع ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب صرف تقریباً ستر کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں بھوکے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ خوراک کی کمی کو پہلے صرف امیر ممالک کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا لیکن اقوام متحدہ کی مذکورہ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں کھانا بڑی مقدار میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس تحقیق میں کچھ خامیاں بھی ہیں مثلاً اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ مسئلہ کس طرح امیر اور غریب ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کھانا جان بوجھ کر ضائع کیا جا رہا ہے یا پھر ایسا غیر ارادی طور پر ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کھانا ضائع ہونے سے متعلق حالات کا خاطرخواہ گہرائی سے جائزہ نہیں لیا لیکن کم آمدنی والے ممالک میں توانائی کے مسائل کی وجہ سے کولڈ چین کا عمل پوری طرح مستحکم نہیں ہے۔ کولڈ چین اُس عمل کو کہتے ہیں جس میں کھانے پینے کی اشیا ء کو سردخانوں میں رکھ کر ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور اِس عمل کے دوران اُنہیں انتہائی یخ بستہ ماحول میں رکھنے سے کھانا خراب نہیں ہوتا۔ اگر ہر گھرانہ ضرورت کے مطابق اشیاء خریدے تو اِسطرح ہونیوالی بچت کو مشکل وقت میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔