لال پری آجا 

 یہ ہمارے بچپن کے کھیل ہیں ”لال پری آجا چھپ چھپ کے آجا تالی بجا کے چلی جا“جہاں تک بچپن کی بات ہے تو مجھے کہنے میں باک نہیں ہے کہ بچپن کے دن توہمارے ہوا کرتے تھے سو اس وقت سینئر نسل گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے کہ اگر بچوں کو چھوڑیں تو مصیبت اور نہ چھوڑیں تو پریشانی مجھے کہنا ہے کہ بچہ پارٹی نے پورے ملک میں ڈھیروں سیٹیں لے کر فتح حاصل کر لی ہے ایسی فتح تو پانچ سال کی محتاج نہیں ہے یہ تو سالوں حکمرانی کریں گے بلکہ آئندہ کے زمانوں کی باگیں بھی انھیں کے ہاتھ میں ہیں سو بڑوں کو دل بڑا کرنا ہے ان کے ہاتھ میں تھامے ہوئے موبائل کو چھیننے سے پہلے ایک لمحہ کو سوچ لیں کہ آپ بہت بڑا غلط کام کررہے ہیں آپ بچے کی نفسیات سے کھیل کر اس کو نفسیاتی مریض بنا دیں گے پھر نہ صرف وہ آپ ہی کے لئے دردسر بنے گا بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے جو معاشرے کاحصہ ہے بھی وبال جان بن جائے گا ایک بہتر معاشرہ کی تشکیل میں آپ روڑے اٹکا رہے ہوں گے کیامعصومانہ زندگی تھی کسی چیز کا پتہ تک نہ تھا مزے سے گزر رہی تھی‘مٹی کے گھروندے بناتے ساحل پر ریت سے سڑکیں بناتے ان پردواؤں کی خالی ڈبیاں لے کر ان کو گاڑیاں جان کر ریس میں حصہ لیتے گلیوں میں خوب گھوم پھرکر دوستوں کے ساتھ کبھی ایک گھر کی تھلی پر جا بیٹھتے اور کبھی سامنے والے مکان کی دہلیز پر براجمان ہو کر اپنے حساب کے بے حساب بادشاہ بن جاتے مزے ہی مزے تھے وہ بچپن کے دن تو ہمارے تھے جب دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بے خبر زندگی گزارتے خوب جیا او رٹھوک بجا کر زندگی گزاری لیکن اب تو معاملہ ہی جدا ہے کیا کریں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ہرزمانہ اپنی ڈیمانڈساتھ لے کر آتا ہے جو کل تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل نہ ہوگاجانے کیا ہوگا پھر وہ کیا سے کیا ہو جائے کس کو کیا پتااب تو بچے اپنی معصوم زندگی کو ترک کر چکے ہیں اب تو بچے بچے نہیں رہے چالاک اور سمجھ دار ہر چیز سے واقف ان کو تو نئے ز مانے کی ایجادات نے بدل کر رکھ دیا ہے اب توبچے بچپن سے گزرتے ہی نہیں ہیں براہِ راست وہ ٹین ایج میں قدم رکھتے ہیں مگر ٹین ایج ہوتی بہت خطرناک ہے اس میں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے ان کی معصومیت کو تو جیسے ان کے چہروں پر سے نوچ کر اتار پھینکا گیا ہے ہر چیز میں جیسے ماسٹر ہیں اگر ماسٹر نہیں تو ماسٹرزکر رہے ہیں جو ایپ اور ڈاؤن لوڈ ماں باپ کو نہیں آتا ان کو معلوم ہے ہربچے کا اپنا میموری کارڈ ہے جس میں ہر قسم کے گانے ہیں کارٹون ہیں گھر کے قریب کمپیوٹر کی دکان ہے گھر سے نکلو دو قدم جاؤ اور ہر چیز کی بھرائی کر کے میموری کارڈ لے آؤ اور خوب دل لگا کر دیکھو مگر دل لگا کر پڑھنے کا مت بولو وہ یہ انوکھا اور بوجھل کام جو یہ لوگ کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں گے مگر صرف اٹھا ہی رکھیں گے پھینکیں گے نہیں بلکہ میں کہوں دو سال کا بچہ ہے اور اس کے ہاتھ میں موبائل ہے اور وہ ایسے ایسے آپشن پر سمجھتاہے کہ بڑوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے حیرانی ہو تی ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے جس بچے کو بات تک کرنا نہیں آتی اس کو موبائل چلانا خوب آتا ہے یہ کہنے میں عذر نہیں کہ آج کی نسل پرانی نسل سے بہت چالاک ہے پھر اسی سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنے والی نسل سے آگے کی انسانی مخلوق کیا ہوگی وہ جو ایک بچے کو دکھلاتے ہیں کہ اس نے دنیا کا گلوب دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گردن کے پیچھے سر پراٹھا رکھا ہے تو وہ سچ ہو کر رہے گایونانی سائنسدان نے تو ہزاروں سال پہلے کہا تھا کہ مجھے دنیا کے گلوب کے باہر دو پاؤں رکھنے کی جگہ دے دو میں دنیا کو اپنے بنائے ہوئے جیک کے ذریعے ہلا دوں گا بلکہ ہماری زبان میں کہ ہلا کر رکھ دوں گا مگر آج دیکھیں تو بچوں نے کمپیوٹر کی دنیا میں کیا کیا کارنامے انجام دے رکھے ہیں انھوں نے پاکستانی ہو کر باہر کے ملکوں کے کمپیوٹر ماہرین کاسر گھما دیا ہے  آج کل کے بچے تو بچے لگتے نہیں شکل و شباہت اور ڈیل ڈول سے باقاعدہ بچے ہیں مگر بات چیت اور رویئے اور میل جول میں بچوں کی سی وہ پرانی عادات واطوار نہیں جو ہم میں موجودتھیں ترقی کے لحاظ سے تو موجودہ بچے اچھے ہیں مگر معصومیت کی شرح سے ہمارے بچپن کے بچے اچھے تھے پھر اس میں گاؤں اور شہر کی خاصیت بھی تو نہیں ہے اب تو گاؤں کے بچے اور شہر کے بچے ایک ہی طرح کی سوچ رکھتے ہیں مختصر یہ ہے کہ بچے دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر اپنی موبائل اور انٹر نیٹ کی کامیابیاں بھی شیئر کرتے ہیں اورذہنی طور پر زیادہ تیز طرار ہو چکے ہیں ”جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے“ یا وہ شعر کہ”چکور خوش ہے کہ بچوں کو آگیا اڑنا مگر اداس کہ رُت آگئی بچھڑنے کی“سو اس طرح نہ کیا جائے کہ بچوں کو چھوٹ دی جائے تو بتلائیں کہ کیا کیا جائے وجہ یہ ہے کہ بچوں کو اگر کمپیوٹراور موبائل سے دور رکھا جائے تو ان کی جہالت کا ویسے کا ویسے رہ جانا یقینی ہے مگر ان کو اجازت دی جائے تو وہ کھیلتے کھیلتے کھل کھیلنے لگتے ہیں جو ہمارے لئے اور خود ان کے لئے بہت برا ہے۔