صدارتی نظا م کا شوشہ۔۔۔

قو می اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خا ن پر ایک بار پھر اعتما د کا اظہار کیا تو سیا سی منظر نا مے پر سکوت طا ری ہو نا چا ہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا وفا قی دارالحکومت کی راہداریوں میں صدارتی نظام کا نیا شوشہ سننے میں آرہا ہے با خبر حلقوں کا خیال ہے کہ بعض لوگوں کو مو جودہ پا رلیمانی نظام اور دو ایوا نی مقننہ کے کر دار سے ما یو سی ہو ئی ہے قو می اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم عمران خا ن ، ایم کیو ایم کے نما ئندے خا لد مقبول صدیقی اور سا بق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مر زا کی تقریروں میں بھی ما یو سی ، بے قراری اور بے اطمینا نی جھلکتی تھی حزب اختلا ف بھی مو جو دہ سسٹم سے خو ش نہیں ملک کی عدالت عظمی بھی مو جو دہ سسٹم سے مطمئن نہیں احتساب کا قومی ادارہ بھی اس نظام سے خو ش نہیں سچ پو چھیں تو ملک کے 22کروڑ عوام کو بھی یہ سسٹم پسند نہیں ہے لو گ اعلا نیہ طور پر ایو ب خا ن اور اس دور کویاد کر تے ہیں جب اختیا رات کا منبع صدر ہوا کرتا تھا عوام کو پارلیمانی جمہوریت ، دوایوانی مقننہ اور دیگر آئینی مو شگا فیوں سے براہ راست آگا ہی نہیں وہ اتنا جا نتے ہیں کہ صدر اچھا ہوتا تھا آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ پا کستان میں 1973ءکا آئین بھی تین بڑی ترامیم کے باوجود فرسودہ ہو چکا ہے1985ءمیں آٹھویں آئینی ترمیم کے بعد1987ءمیں پاکستان کے اندر نئے عمرانی معا ہدے ، نیو سو شل کو نٹریکٹ کی تجویز گردش کر رہی تھی ستر ھویں اور اٹھا ر ویں تر میم میں اس کو نظر انداز کیا گیا اب ملک کو نئے آئینی نظا م اور نئے عمرانی معا ہدے کی ضرورت ہے۔ مو جو دہ آئین کو سب سے پہلے محمود علی قصوری نے تر تیب دیا آٹھویں ترمیم شریف الدین پیر زادہ کی کا وشوں کا نتیجہ تھا ستر ھویں اور اٹھارویں ترمیم میں رضا ربا نی اور فاروق ایچ نا ئیک کی کا وشیں شامل تھیں اب کی بار بیرسٹر فروغ نسیم کی خد مات حا صل ہیں ان کی خد مات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ گیند کس کے پا س ہے ؟ پہلا راستہ یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام لایا جائے مو جو دہ حکومت کی دو مشکلات ہیں ایک مشکل یہ ہے کہ اسمبلی میں دو تہا ئی اکثریت حا صل نہیں دوسری مشکل یہ ہے کہ دوسری سیا سی جما عتوں کے ساتھ سلا م دعا یعنی ورکنک ریلیشن شپ نہیں ہے آئینی تر میم کے علا وہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ، صدارتی نظام نا فذ کیا جائے تیسرا راستہ یہ ہے کہ سیا ستدا نوں کی مکمل نا کامی کی صورت میں کسی بڑے انقلا ب کے ذریعے موجو دہ نظام حکومت کی پوری بساط لپیٹ کر صدارتی نظام نا فذ کیا جائے سینئر اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے پا س پا رلیما نی نظام کو بدلنے کا زریں مو قع تھا انہوں نے قو می تعمیر نو کا محکمہ بنا یا مگر اس کے ذریعے قومی تعمیر نو کا کوئی کام نہیں کیا اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیا سی اور سما جی دا نشور قوم کو نئی راہیں دکھا ئیں نئے عمرانی معا ہدے کی گردجھاڑ کر اُسے دوبارہ سامنے لائیں قومی تعمیر نوبیورو کے تصور کا ازسر نو جا ئزہ لے لیں۔ آخر کوئی مسئلہ تو ہے بات یہ نہیں کہ حزب اقتدار اپنے مخا لفین کے سر تھوپے اور حزب مخا لف حکومت کو الزام دے۔ اگر وطن عزیز کو معا شی ، سما جی اور سیا سی بحرانوں سے نکا لنا ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ مستحکم صدارتی نظام کے ذریعے اداروں کو مضبوط کیا جائے قانون کی حکمرا نی 1960کے عشرے کی طرح ہو گی تو سما جی اور معا شی تر قی بھی 1960کے عشرے کی طرح ہو گی اور صدارتی نظام کے بغیر اس کا امکان نہیں ۔