صنفی مساوات کے عالمی درجہ بندی (انڈیکس) میں پاکستان کی کارکردگی عراق اور یمن سے بہتر ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں کی نمائندہ تنظیم ”ورلڈ اکنامک فورم“ کی جانب سے صنفی مساوات پر مبنی مذکورہ رپورٹ میں پاکستان دنیا کے153 ممالک کی فہرست میں151ویں نمبر پر ہے۔ اسکور کارڈ کے مطابق پاکستان معیشت میں خواتین کی شرکت اور یکساں مواقع کی فراہمی میں حاصل کردہ نمبر ڈیڑھ سو‘ خواتین کےلئے تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں حاصل کردہ نمبر143‘ صحت اور بقا کی جنگ میں حاصل کردہ نمبر149 جبکہ سیاسی اختیارات میں حاصل کردہ نمبر93 ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ خواتین کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کےلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں نشستیں مختص کی گئی ہیں لیکن اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور اگرچہ پاکستان کے خزانے پر بوجھ بڑھا ہے لیکن سوائے فائدہ اُٹھانے والی سیاسی جماعتوں کے علاو¿ہ کوئی بھی فریق خواتین کی مخصوص نشستوں سے مطمئن نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ خواتین کے لئے مخصوص پارلیمانی نشستیں ختم کی جائیں اور اُنہیں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں کہ وہ عام انتخابات میں اُسی آزادی کے ساتھ حصہ لے سکیں جیسا کہ مرد حضرات لیتے ہیں اور ایسی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جن میں جنرل نشستوں پر خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئیں۔ پاکستان میں صنفی مساوات کا حصول خواتین کو معذور اور بے بس سمجھتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا بلکہ خواتین کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی اور حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں سوشل میڈیا پر خواتین کی جانب سے ارسال کردہ اپنے تجربات اور تجاویز لائق توجہ ہیں۔ خواتین سمجھتی ہیں کہ جہاں تک سماجی میدان میں خواتین کو مساوی حیثیت دلانے کی بات ہے تو اس کے لئے ریاست کو صنفی مساوات کو اپنے بیانیے کا حصہ بنانا ہوگا جس میں عورتوں کا باہر کام کرنا معیوب تصور نہ کیا جاتا ہو۔ آج بھی غالب ذہنیت یہی ہے کہ خواتین کی تعلیم اور گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور کوئی معاشرہ اس وقت تک خوشگوار تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر سکتا جب تک وہاں عوامی رائے اور سوچ و فکر تبدیل نہ ہو۔ عام رائے یا سوچ کے دباو¿کی وجہ سے خواتین کو سماجی اور اقتصادی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا موقع نہیں ملتا۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ‘ ثقافتی سرگرمیوں‘ حتیٰ کہ ٹیلی ویژن ڈراموں فلموں کے ذریعے خواتین کی معاشرتی سطح حصہ داری کو مثبت اور حوصلہ افزا طریقے سے دکھایا جاسکتا ہے۔ قانونی طریقوں سے آگاہی دی جاسکتی ہے جن کے ذریعے خواتین محفوظ سماج کو جوڑنے کےلئے آگے بڑھ سکیں۔دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں صنفی عدم مساوات زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ اِس بارے میں بذریعہ سوشل میڈیا خواتین کا کہنا ہے کہ شہروں میں خواتین کےلئے کام کی جگہوں کو محفوظ بنایا جائے اور ادارہ جاتی سطح پر سرگرم عمل نگران کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ ماحول میں موجود حوصلہ شکن عناصر وہاں اپنی جڑیں نہ پکڑ سکیں۔ جہاں تک دیہی علاقوں کی بات ہے تو وہاں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد اقتصادی سطح پر مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں لیکن وہاں بھی صدیوں سے عورت کا مالی طور پر استحصال جاری ہے۔ کھیتوں اور زراعت سے جڑے کاموں کو انجام دینے پر انہوں نے یا تو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے اور اکثر تو ان کے حصے کی اجرت ان کے مرد رشتہ دار کو دے دی جاتی ہے‘ یوں مالی طور پر ان کی خود انحصاری کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا جاتا۔ دیہی خواتین کی سماجی حیثیت کی بلندی کی پہلی شرط تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو اپنے حقوق کی آگاہی سے آشنائی اور تکنیکی ہنر کے زیور سے آراستگی لازمی ہے‘ اسی کے بعد ہی ایک دیہی عورت اقتصادی اعتبار سے بااختیار بن سکتی ہے۔ دراصل سماجی حیثیت میں بلندی ہی خواتین کی اقتصادی سرگرمیوں میں شرکت کی صلاحیت‘ مارکیٹوں تک رسائی اور اپنے پیداواری وسائل پر ان کے اختیار کو بڑھاتی ہے۔ المیہ ہے کہ نصاب تعلیم میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ہے اور نصابی کتب میں خواتین کی نمائندگی میں بڑی حد تک کمی نظر آتی ہے۔ نصاب میں خواتین کو مخصوص اور روایتی کرداروں تک محدود دکھایا جاتا ہے۔ خواتین زیادہ تر گھر کے اندر کھانا پکاتے ہوئے اور گھر سنبھالتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ پاکستانی سماج جدیدیت اور صنعت کاری کے ادوار کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے گزرنے اور ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے کے باوجود بھی ہمارا نصاب تازہ تبدیلیوں کے ہم پلہ نہیں۔نصاب میں سب کی مساوی نمائندگی لازمی ہے۔ نصاب کو ترتیب دیتے وقت ”مطالعہ¿ نسواں“ کے ماہرین کی رہنمائی لی جائے تاکہ وہ معاشرے کے اندر عوامی اور نجی حلقوں میں خواتین کی حصہ داری سے متعلق اپنی رائے دے سکیں اور اسی کی روشنی میں نصاب مرتب کیا جائے۔ صنعتی اور جدید دور میں داخل ہونے کے بعد بھی بیشتر مردوں کی عورتوں سے جڑی ذہنیت کی ارتقا کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا اور وہ اب بھی فرسودہ سوچ میں الجھے ہوئے ہیں مثلاً اکثر مرد شادی کے معاملے میں پڑھی لکھی خواتین کو ان پڑھ خواتین پر صرف اس لئے ترجیح دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی اپنی حیثیت بڑھے ۔اس ذہنی ارتقائی عمل میں رکاوٹ کی وجہ ثقافتی اور فرسودہ روایات کا خاصا عمل دخل ہے لہٰذا بطور معاشرہ اس ارتقائی عمل کے تعطل کو توڑنا اور خواتین کے کردار سے متعلق زاویہ نظر کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔