الیکشن کمیشن میں داخل کردہ درخواست میں پاکستان تحریک ِانصاف کے ارکان ملیکہ بخاری‘ کنول شوذب اور فرخ حبیب نے یہ مو¿قف اختیار کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بد عنوانی اور پیسے لینے کے نتیجے میں انتخابات کا نتیجہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں آیا۔ تین مارچ (سینیٹ انتخابات) میں ووٹوں کی خریدوفروخت سے متعلق حقائق پہلی بار سامنے نہیں آئے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے شواہد اور بیانات آتے رہے ہیں جن میں اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خریدی جاتی رہی ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے کبھی بھی موجود ثبوتوں کو کافی قرار نہیں دیا۔ سینیٹ انتخابات کے نتائج پر تحریکِ انصاف دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے اور اسی سلسلے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ای سی پی پر چار مارچ کو قوم سے خطاب کے دوران الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ”الیکشن کمیشن نے خفیہ بیلٹنگ کرا کے مجرموں کا ساتھ دیا ہے۔“ قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا ایسے درد کا عکاس تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت خاطرخواہ ثمرات سے محروم ہے۔ الیکشن کمیشن نے پانچ مارچ کو وزیرِ اعظم کے خطاب اور دیگر وفاقی وزرا کے بیانات کی ویڈیو پیمرا سے طلب کرکے خصوصی اجلاس بلایا۔ اجلاس کے بعد ای سی پی کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ”اداروں پر کیچڑ نہ اچھالا جائے اور الیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔“ بارہ مارچ کو ہونے والے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں ایک بار پھر حزب اقتدار و اختلاف آمنے سامنے ہوں گے‘ جس کےلئے پی ٹی آئی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے لئے نامزد کیا ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا نامزد اُمیدوار برائے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی ہیں۔انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کم کرنے کےلئے جہاں ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے وہیں انتخاب کے روایتی طریقہ¿ کار میں بھی تبدیلی ہونی چاہئے۔ ایسی صورت میں جبکہ انتخاب کے عمل میں ووٹوں کی خریدوفروخت راز نہیں رہا تو ووٹ کی عزت و تکریم کےلئے ضروری ہے کہ خفیہ ووٹنگ کی بجائے ظاہراً ووٹنگ کروائی جائے۔ قومی آئین میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کلیدی عہدوں کےلئے انتخاب کا عمل خفیہ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اقلیت رکھنے والے منتخب ہو جاتے ہیں اور چونکہ یہ بدعنوانی سرائت کر چکی ہے اور اِسے پسند بھی کر لیا گیا ہے اِس لئے آئینی ترمیم کے ذریعے اِس کا راستہ روکا نہیں جا رہا۔ انتخابی عمل جمہوریت کی روح ہوتا ہے اور یہی وہ مرحلہ¿ فکر ہے جہاں شعوری فیصلہ کرنا ہے کہ انتخاب کے عمل کو کس طرح اور ایسا شفاف بنایا جائے کہ جس سے جمہوریت کا حسن دوبالا ہو اور انتخاب سے قبل اور بعد میں تنازعات بھی پیدا نہ ہوں۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتہ¿ نظر سے سینیٹ انتخابات میں کسی جماعت کی کامیابی یا شکست بے معنی ہے کیونکہ اب تک سینٹ نے کوئی ایسا حل پیش نہیں کیا جس سے مہنگائی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کمی آ سکے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں یہ بات فراموش کر بیٹھی ہیں اُن کا عوام سے تعلق کمزور ہوا ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں سیاسی اعتماد کی بحالی بھی ضروری ہے۔