ماضی کی طرح تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پھر”ہارس ٹریڈنگ“ کے الزامات سامنے آئے اور بارہ مارچ کو سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے نتائج بھی ماضی کی طرح مشکوک اور متنازعہ ہونے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات میں تسلسل کیوں ہے اور شفاف اور غیر متنازعہ سینیٹ انتخابات کس طرح یقینی بنائے جاسکتے ہیں؟سینیٹ انتخابات میں بڑھتے ہوئے ”ہارس ٹریڈنگ“ کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاسی روئیےہیں۔ بے اصولی اور دھاندلی سے پارٹی کو فائدہ ملنے کا امکان ہو تو کوئی بات نہیں اور جسے نقصان ہو وہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔ کبھی کسی ایک پارٹی کی خوشی یا فریاد کی باری ہوتی ہے اور کبھی کسی دوسری کی۔ لیکن قول و فعل کے اس ہمہ گیر اور واضح تضاد کے باوجود ہر پارٹی پروپیگنڈے کی طاقت سے خود کو مظلوم و مجبور ثابت کرنے کی کوشش کرتی اور دوسروں کو اخلاقیات کا بھاشن دیتی رہتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ اکثر پارٹیاں اپنے ارکان کھونے کے خدشے سے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتیں۔ صرف پی ٹی آئی نے ہی 2018 میں اپنے چند ارکان کے خلاف اقدام کیا تھا۔سینیٹ انتخابات خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر اِس نظام پر صحیح عمل ہو تو نہ صرف ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی بلکہ اچھے لوگ بھی منتخب ہو سکیں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ووٹ دینے والا سینیٹ کے ارکان یا چیئرمین کے انتخاب سے پہلے اپنی پارٹی کے ساتھ ہوتا ہے مگر اندر جاکر لالچ کے عوض مخالف امیدوار کو ووٹ دے جاتا ہے۔مثلاً اگست 2019 میں چونسٹھ ارکانِ سینیٹ کی حامل حزب اختلاف نے چیئرمین سینیٹ سنجرانی صاحب پر عدم اتحاد کی تحریک پیش کی۔ سنجرانی صاحب کی حمایت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی کر رہے تھے جن کے سینیٹ میں چھتیس ارکان تھے۔ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے اپوزیشن کے چونسٹھ ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر قرارداد کی حمایت کی لیکن پھر خفیہ ووٹنگ میں پچاس ارکان نے قرارداد کا ساتھ دیا۔ گویا چودہ ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ اپوزیشن نے دھاندلی کی دہائیاں دیں جبکہ جیتنے والے خوشیاں مناتے رہے۔ اسی روز چھتیس ارکان والے حکومتی اتحاد نے ڈپٹی چیرمین سینیٹ سلیم مانڈی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو قرارداد کے حق میں بتیس ووٹ پڑے حالانکہ اتحاد کے ارکان چھتیس تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان ادھر ادھر ہوگئے تھے۔ مثلاً 2018 میں سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آءکے بیس ایم پی ایز پر "ہارس ٹریڈنگ" کا الزام لگا۔ پی ٹی آئی فریاد کرتی رہی اور چند پارٹیاں فتح کا جشن مناتی رہیں۔ مگر حیران کن طور پر پنجاب میں پی ٹی آئی کے چودھری سرور چوالیس پہلی ترجیح اور دو دوسری ترجیح ووٹوں کے ساتھ سینیٹ کی نشست جیت گئے باوجود یہ کہ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے 38 ارکان تھے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے 52 ارکان تھے لیکن وہ صرف ایک نشست جیت سکی جبکہ پی پی پی نے وہاں سے دس نشستیں جیت لیں۔ اب ایم کیو ایم دھاندلی کا واویلا کرتی رہی اور پی پی پی خوش تھی۔مثلاً تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد سے دو نشستیں ملنی چاہئے تھیں لیکن پی ڈی ایم اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی غیر متوقع طور پر اس کی ایک نشست جیت گئی۔ سندھ میں پی پی پی کی چھ نشستیں بنتی تھیں وہ سات جیت گئی جبکہ جی ڈی اے اپنی ایک یقینی نشست سے محروم ہوگئی۔ بلوچستان میں پختونخوا قومی پارٹی اور بی این پی دونوں ایک ایک نشست سے محروم ہوگئیں اور وہاں دو آزاد امیدوار جیت گئے۔ آزاد ارکان میں سے ایک کل پی ٹی آئی میں شامل ہوگیا۔اب سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو، اسحٰق ڈار کے بغیر جو 2018 میں منتخب ہوئے تھے مگر تاحال حلف نہیں اٹھاسکے، اڑتالیس ارکان جبکہ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو سینتالیس ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اگر جماعت اسلامی بائیکاٹ نہیں کرتی تو 99 ارکان ووٹ ڈالیں گے۔ اس صورت میں جماعت اسلامی اور اے ایں پی کے باقی چار ارکان جس کی حمایت کریں گے وہ انتخاب جیت لے گا بشرط یہ کہ ”ہارس ٹریڈنگ“ نہ ہو۔آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے مطابق سینیٹ ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی نظام کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس دفعہ میں تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیوں کی پوزیشن کے تناسب سے ان کو نشستیں دینا ضروری نہیں تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ارکانِ سینیٹ کا انتخاب لازمی ہے تو پھر خفیہ اور دوبارہ انتخاب کی بات کیوں کی گئی؟ اس تناقص کو دور کیا جانا چاہئے اسکا حل یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پہ نامزدگی کے ذریعے سینیٹ نشستیں پ±ر کی جائیں یعنی پارٹیاں اپنے حصے کے ارکان نامزد کریں اور الیکشن کمیشن ان کا بطور ارکانِ سینیٹ تقررنامہ جاری کرے۔ اس مقصد کےلئے آئین کی دفعہ 59 شق 2 میں ”واحد قابلِ انتقال ووٹ“ کی جگہ ”پارٹی سربراہ کی جانب سے نامزدگی“ کے الفاظ شامل کردیئے جائیں نامزدگی کا یہ طریقہ قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کےلئے اپنایا گیا ہے تو یہاں کیوں اختیار نہیں کیا جاسکتا۔؟ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کو بھی سب پارٹیاں آئینی ترمیم کرکے شو آف ہینڈز کے ذریعے کردیں تو دھاندلی کا راستہ بند ہوجائے گا۔