اگر کسی بڑی شخصیت کو نوبل پرائز ملے ۔اس کی دنیا بھر میں دھوم ہو ۔ لیکن اس کو اپنے شہر پشاور کی حکومت ایوارڈ نہ دے ۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے ۔ عام طور سے بھی ۔پھر خاص طور سے بھی یہ قابلِ افسوس ہے ۔ کیونکہ جب اپنے لوگ اپنی شخصیت کی جو ان کے درمیان موجودہوقدر نہ کرے تو پھرکیا حاصل۔کیونکہ اس کی پہچان اس کے اپنے لوگوں میں ہوتی ہے ۔ پشاور کے بڑے کو اگر پشاور نے ایوارڈ نہ دیا اور دنیا نے ایوارڈ دیا تو یہ شربت بھراجام ہے جو دورسے سرخ اناری میٹھا نظر آتا ہے مگر اس میں اندرون شیرینی نہیں ۔سٹی ڈسٹرکٹ گورنمٹ کا سیزن تھری فخرِ پشاور ایوارڈ شروع ہو رہاہے۔جس کےلئے نامزدگیاں مانگی جا رہی ہیں۔ وقت کم رہ گیا ہے۔پندرہ مارچ کو شاہی باغ پشاورطہماس خان فٹ بال گرا¶نڈ والے دفتر میںکاغذوں کی جانچ پڑتال شروع ہو جائے گی۔ اگر کسی کو دعویٰ ہے کہ معاشرے میں اس کی کارکردگی نمایا ںہے ۔پھر و ہ کارگذاری اس قابل ہے کہ سراہی جائے مثال بنے۔پھر شہری اپنی زندگی کو اسی ڈگر پر چلائیں ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ فنکاروں کو سامنے آنا چاہئے ۔اگرچہ کہ یہ فنکاروں کی فن کی قدر افزائی کے لئے ناکافی ہوگا ۔مگرخود فخرِ پشاور ایوارڈکےلئے یہ قابلِ فخر ہوگا کہ وہ یہاں کے کسی جغادری دیوقد فنکار کو بطور انعام حاصل ہو ۔ قدر افزائی کرنا بہت بہتر ہے۔ دراصل ہماری عادت بن چکی ہے کہ فنکار مر جاتے ہیں تو ان کے بعد وصال ان کی تصویر کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ۔مگر جیتے جی ان کی قدر نہیں ہوتی ۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے کہ پشاور کے زندہ سپوتوں کو ان کی کھلی آنکھوں ایوارڈ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنی عزت و توقیر اپنی زندگی میں دیکھ لیں۔فخرِ پشاور ایوارڈ کے دو سیزن ہو چکے ہیں۔ دوسرے سیزن میں مہمانِ خصوصی سینئر وزیر عاطف خان نے اعلان کیا تھا کہ اب کے بعد یہ ایوارڈ فخرِ خیبرپختونخوا کہلائے گا۔ یہ بھی فرما دیا انعام کی نقد رقم بھی دی جائے گی ۔برسوں پہلے پشاور بورڈ آف انٹر میڈیٹ کی جانب سے مجھے اردو آنرز کے امتحان میں اول آنے پر گولڈ میڈل حاصل ہوا ۔ اس وقت بورڈ کے سیکرٹری سرٹیفیکیٹ کے سامنے میری پیشی ہوئی ۔ میں نے اپنی ازلی نادانی کے کارن پوچھ لیا سر اس میڈل کی قیمت کیا ہوگی۔ پھر کیا تھا انھوں نے بھری محفل میں جب ان کے مہمان بھی ان کے دفتر میں موجود تھے مجھے وہ جھاڑ پلا ئی کہ دن کی روشنی میں آنکھوں کے سامنے تارے گھوم گئے ۔ وہ دن او رآج کا دن میں اس بات کاقائل ہو چلا ہو ںکہ انعام خواہ کچھ بھی ہو انعام انعام ہوتا ہے ۔ستائش ضروری ہے ۔اس سے کارگذار کی کارکردگی کو بڑھاوا ملتا ہے ۔ اس کی مہارت میں قدرتی طور پر اضافہ ہوتا ہے انھوںنے غصے میں کہا ایک پنسل بھی انعام ملے تو بڑی بات یہ تو گولڈمیڈل ہے ۔ یہ تو تمہارے بعد از وفات بھی تمہارے نام کے ساتھ لکھا جائے گا۔ صاحبان فخرِ پشاور ایوارڈ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا کارنامہ ہے ۔مجھے اگر ملکہ برطانیہ بھی انعام سے نوازتی تو مجھے وہ خوشی نہ ہوتی۔ جو مسرت 2019ءمیںنشتر ہال پشاور میں فخرِ پشاور ایوارڈوصول کرتے ہوئے حاصل ہوئی۔کیونکہ ہم جن کے درمیان میں رہتے ہیں وہ اگر قدر نہ کریں اور غیر وں کے ہاں سے عزت ملے تو ہر چند یہ اعزاز تو ہوتا ہے مگراس کا مزہ وہ نہیں ہوتا۔حالانکہ ہم کس ہنر میں یکتا ہیں ۔ مگر یہ جو ہمارے نام کے ساتھ خون کے عطیات کالیبل لگا ہے ا س نے ہمیں اس قابل کیا کہ ہم بھی فخرِ پشاور ہوئے۔ابھی پندرہ مارچ کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دفتر میں امیدواروں کے ناموں کی چھان پھٹک شروع ہو جائے گی۔یہ ایوارڈ مختلف کیٹگریز میں دیئے جاتے ہیں۔ادب، لکھاری، سپورٹس، رضاکار،فنونِ لطیفہ ، ڈرامہ ، موسیقی، تعلیم ، امورِ نوجوانان،تاریخ اور ثقافت، زراعت، منفرد ہنر۔ پہلی دوبار تو میئر پشاور عاصم صاحب نے یہ انعامات دیئے۔ مگر اب چونکہ بلدیاتی حکومتیں تحلیل ہو چکی ہیں ۔سو موجودہ وقت کے ڈائریکٹر جنرل ضلعی حکومت جناب میاں شفیق کی سربراہی میں یہ ایوارڈ دیئے جائیں گے۔حکومتوں کے احسن کام ہمیشہ سراہے جاتے ہیں۔ خواہ حکومتیں نہ رہیں۔ مگر کام میرٹ پر ہونا چاہئے ۔ کیونکہ اگر میرٹ پر انعام نہ ملے تو آئندہ کےلئے اس ایوارڈ کی قدر و قیمت گم ہو جاتی ہے ۔پھر کسی کو بھی ملے کسی کو بھی اس کی پروا نہیں رہتی۔