ہمیں توچاند نظر ہی نہیں آتا۔ کچھ چاند کو آسمان پر ڈھونڈتے ہیں ۔کچھ کو تو چاند اپنے گھر آتے ہوئے نظر آتاہے۔مگر وہ لوگ بھی ہیں جو اس خوبصورت دکھائی دینے والے چاند پر جا کر پا¶ں رکھ کر آتے ہیں۔ وہاں کھڑے ہو کر اس کو روند کر اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں۔اپنے جھنڈے گاڑھتے ہیں۔تصویریں زمین پر بھیجتے ہیں۔ وہاں کی مٹی ساتھ پوٹلی میں لے کر آتے ہیں ۔ اس پر تحقیق کرتے ہیں۔ کچھ تو ہمارے یارِمہربان ہیں کہ انھیں اب تک یقین نہیں کہ ساٹھ سال پہلے آدمی چاند سے ہو کر آچکا ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو کہیں اونچے اونچے پہاڑو ں پر سے ہو کر آئے ہیں۔ایک ہم ہیں ایک وہ ہیں جو چاند پر بستیاں سجانے کی سوچ میں ہیں۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کرہ ¿ ارض پر انسانوں کے لئے رہنے کو مکانات ہی نہیں ہیں۔ اگرچہ کہ اصول میں شامل نہیں مگر عام طور سے یہی دیکھا ہے کہ جو غریب ہے ہمیشہ غریب ہی رہتا ہے۔یہا ںکھانے جو گی روٹی نہیں اور ادھر جاپان میں ایک شہری نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاند پر جائے گا اور ساتھ میں کچھ لوگوں کو بھی لے جائے گا۔ عجیب شوق ہیں ظالموں کے ۔ ہمارے ہاں کوئی تیتر بٹیر کوئی کتے پالتا ہے او رکوئی یہ شوق پالتا ہے کہ دنیا کی تسخیر کرے ۔یہی تو ہمارے اور ان کے درمیان میں فرق ہے ۔فرق فاصلوں کا نہیں۔جیسے ایک آدمی نیویارک میں دوسرا جاپان میں ہے اورہم سے دور ہے ۔ وہ اگر یہ فاصلے مٹا بھی دیں اور اپنے اپنے ملکوں کو اٹھا کر ہمارے ملک کے قریب لے آئیں ۔مگر جو فرق ہے وہ تو رہے گا اور جانے کب تک رہے گا۔ وہ فرق جس کامیں ذکر کرنا چاہتا ہوں سوچ کا فرق ہے ۔ یہاں تو ذرا سی نئی سوچ دماغ میں آئی تووہاںسے بندوق کی گولی بھی اسی دماغ میں آ کر لگی۔ نئی سوچ والوں کو تختہ دار کی رسی کو چومنا ہوتا ہے ‘تاکہ ان کو اس بات کی سزامل سکے کہ انہوں نے اول تو سوچا ہی کیوں۔ پھر اگر سوچا تو نیا کیوں سوچا۔ اب جاپان کے اس بندے کو لیں کہتا ہے میں ان لوگوں کا خرچہ بھی خود برداشت کروں گا۔مگر میری صرف دو شرطیں ہوں گی ۔ملاحظہ ہو کہ یہ لوگ معاشرے کے ساتھ کتنا سنجیدہ ہیں۔وہ اپنے ساتھ آٹھ بندوں کو لے جائے گا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ جو ساتھ جائے گاوہ دوسروں کی مدد کرتا ہو۔ کتنی عجیب سوچ ہے ۔ یہ ہمارے ہاں کب سوچا جاتا ہے ۔یہ سوچ کہ دوسروں کے لئے اچھا سوچو۔ ہم سوچیں اور اپنے لئے کیوں نہ سوچیں اپنے بال بچوں کے لئے دو پیسے جوڑ کر کیوں نہ رکھیں۔ دوسرے کے بچوں کے ساتھ ہمارا کیا واسطہ۔ دوسرے کون ہیں جو ہم ابھی ان کے لئے بھی کچھ اچھا سوچیں گے۔ دوسری شرط یہ کہ خلا کے دورانِ سفر وہ ساتھیوں کے ساتھ سرِ آسمان تعاون کرے گا۔یساکومیزاوا شاید سٹھیا گیا ہو ۔ یہ خود بھی ارب پتی ہے ۔ان کے مشن کا نام ہے ڈیئر مون اور یہ 2023ءمیں روانہ ہوگا۔پھر اس میں اس کے ساتھ جانے والے لوگ عام آدمی ہیں۔اس مشن کانام سپیس ایکس سٹار مشن ہے ۔پانچ سال پہلے مریخ پر جانے والوں کی فہرستیں بھی مرتب ہوئی تھیں۔ امریکہ میں ان لوگوں کے نام لکھے گئے جو مریخ پر جانا چاہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ایک بار مریخ جانے والے واپس نہیں آسکیں گے۔ وہیں ان کی موت ہوگی۔ مگر وہ اس مشن سے بھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ میںان میں ایک سے ایک شخص کا انٹرویو سن رہاتھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ مریخ پر کیوں جانا چاہتے ہیںکیونکہ وہاں تو آکسیجن نہیں ہے ۔آپ کو وہاں مرناہوگا۔ اس نے کہا قبول ہے۔ سوال کرنے والے نے کہا مگر کیوں۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس بات پر فخر ہوگا کہ میری آنے والی نسل کہے کہ ہمارا باپ یا دادا مریخ پر جا کر فوت ہوا تھا۔ عجیب شوق ہیں ۔ ہمارے ہاںکے شوق مختلف ہیں۔ ہم روٹی پانی کی فکر سے آزاد ہوں تو تب جا کر ہمیں کوئی اور سوچ آن گھیرے کہ ہم نے ستاروں سے آگے جانا ہے ۔