سینٹ: آشنائے راز۔۔۔

ملک کے کلیدی عہدوں کا فیصلہ کرتے ہوئے ”وفاق پاکستان کے تقاضوں‘ ‘کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے جیسا کہ موجودہ صورتحال میں صدر مملکت کا تعلق سندھ‘ وزیراعظم کا تعلق پنجاب اور سپیکر قومی اسمبلی کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے تو بلوچستان کا حق بنتا ہے کہ اُسے سینٹ کی سربراہی سونپ دی جائے۔ اِس سلسلے میں حکمراں جماعت کی جانب سے ایک ڈرامائی پیشرفت سامنے آئی کہ بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے غفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے نامزد کرنے کی مبینہ پیشکش کی گئی جس کی بعد میں تردید ہوئی لیکن اِس قسم کی افواہیں اُڑانے والوں نے اِس باریک نکتے کو فراموش کر دیا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے الگ الگ صوبوں کو دینے کے فوائد زیادہ ہیں۔ بہرحال صادق سنجرانی تحریک انصاف اور اِس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے چیئرمین سینٹ کے لئے نامزد ہو چکے ہیں اور اُن کو نامزد کرنے کی کئی وجوہات ہیں جیسا کہ 1: وہ بلوچستان کی سیاست میں فعال ہیں۔ 2: مقتدر حلقوں کے ساتھ اُن کے تعلقات مثالی رہے ہیں اور 3: ایک مخصوص سیاسی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اُن کے کردار سے وفاق پاکستان کی مضبوطی میں مدد لی جا سکتی ہے۔ سنجرانی سیاست میں نسبتاً نوارد اور کم جانے پہچانے ہونے کے باوجود ملک کے تیسرے بڑے اہم عہدے کے لئے منتخب ہوئے تب حیرت کا اظہار بنتا تھا لیکن بطور چیئرمین سینٹ اُن کی کارکردگی اور سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت کے عملی مظاہرے دیکھنے کے بعد اِس بات پر بہت کم تجزیہ کاروں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ اُنہیں تحریک انصاف نے بلاتامل سینٹ چیئرمین کے لئے نامزد کر دیا ہے اور کسی سیاسی شخصیت کا یہ مثبت پہلو کہ اُسے غیرمتنازعہ سمجھا جائے کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم ہوتا ہے۔ پاکستان کے مقابلے بلوچستان کی سیاست مختلف ہے جس پر قوم پرست جماعتیں حاوی ہیں۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کی اکثریت ”شدید قسم کی نظریاتی“ ہیں اور مصلحت پسندی پر ان کا کم ہی یقین ہے۔ سنجرانی محب وطن اور وفاق پرست سوچ کے مالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ”بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اِس لمحہ¿ فکر پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا یہ پس منظر بھی ذہن نشین رہے کہ مقتدر قوتوں سے اچھے تعلقات رکھنے والی جماعتیں اور شخصیات ہر دور میں سامنے آتی رہی ہیں۔ جیسا کہ ایوب خان کے زمانے میں کنونشن لیگ ’محب وطن‘ قرار دی گئی‘ یحییٰ خان کے زمانے میں قیوم لیگ اور جنرل ضیا ءکے دور میں جونیجو مسلم لیگ تو پرویز مشرف کے دور میں قائداعظم لیگ اور پیٹریاٹس کو پسندیدگی کی سند ملی۔ بہرکیف صادق سنجرانی کی پرورش مختلف سیاسی نرسریوں اور حکومتوں میں ہوئی ہے اور انہوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کے نظریئے کو نہیں اپنایا اور وہ اب بھی حب الوطنی ہی کے بنیادی نظریئے کے حوالے سے مقتدرہ اور ریاست پاکستان کے حامی ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کو امید ہے کہ صادق سنجرانی باآسانی سینٹ کے چیئرمین منتخب ہو جائیں گے جیسا کہ اگست دوہزاراُنیس میں حزب اختلاف نے اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی مگر وہ اِسے منظور نہیں کروا سکے تھے۔ سنجرانی کی فتح شک و شبے سے بالاتر ہے کیونکہ وہ زمین پر پاو¿ں رکھے کھڑے ہیں لیکن بظاہر اعدادوشمار یوسف رضا گیلانی کے حق میں ہیں کیونکہ سینٹ میں حزب اختلاف کی اتحادی جماعتوں کے پاس 53 جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس 47 اراکین کی نمائندگی ہے لیکن وہی ہوگا جو پہلے ہو چکا ہے اُور اِسے وفاق پاکستان اور جمہوریت کی مضبوطی جیسے القابات دیکر قابل قبول بنا دیا جائے گا۔ ”نگاہ¿ یار جسے آشنائے راز کرے: وہ اپنی خوبی¿ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے....خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد : جو چاہے آپ کا حسن ِکرشمہ ساز کرے (حسرت موہانی)۔“