وفاقی وزارت ِخزانہ (فیڈرل بورڈ آف ریوینیو‘ ایف بی آر) نے گزشتہ ڈھائی سال میں قریب ساٹھ ارب روپے کی بیرونِ ملک سے پاکستان منتقلی کا سراغ لگایا ہے جو کہ بیرونِ ملک صارفین کو ’فری لانسنگ‘ خدمات فراہم کرنے اور اُنہیں خدمات سمیت مختلف اشیا ء فروخت کرنے کے عوض کمائے گئے ہیں لیکن اِس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ یہ رقم ’پیؤنیئر‘ نامی کمپنی کی جانب سے پاکستان میں مختلف افراد کو بھیجی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ پیؤنیئر ڈیجیٹل ادائیگیوں کا پلیٹ فارم ہے جس کا کام ایک شخص کی ادائیگی کو صرف دوسرے تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ کمپنی بذات ِخود ادائیگی نہیں کرتی۔ جہاں دنیا کے کئی ممالک میں فری لانسر ’پے پال‘ کا استعمال کرتے ہیں، وہیں پیؤنیئر پاکستان میں پے پال کی خدمات دستیاب نہ ہونے کے باعث‘ پاکستانی فری لانسرز کا پسندیدہ پلیٹ فارم ہے۔ مشہور فری لانسنگ ویب سائٹس فائیور یا اپ ورک وغیرہ پر کام کے بدلے میں کلائنٹ کی جانب سے رقم پیؤنیئر اکاؤنٹ میں منتقل کی جاتی ہے جسے بعد میں صارفین اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹ یا ’جیز کیش‘ میں منتقل کروا سکتے ہیں اور اِسی سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کسی صارف کو رقم پیؤنیئر کے ذریعے آئی ہے تاہم اس سے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ ادائیگی کس مد میں کی گئی ہے۔ ایف بی آر کی کوشش ہے کہ اِس آن لائن آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے جس سے ملکی خزانے کو اربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ’ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکنڈ شیڈول کی شق 133کے تحت کمپیوٹر سافٹ ویئر‘ آئی ٹی سروسز یا آئی ٹی اینیبلڈ سروسز (وہ خدمات جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے انجام دی جائیں) کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کچھ شرائط کے تحت تیس جون دوہزارپچیس تک ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس حوالے سے آرڈیننس میں صراحت کی گئی ہے کہ آئی ٹی سروسز اور آئی ٹی اینیبلڈ سروسز میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں۔ جب فری لانسر کی خدمات کو ٹیکس سے استثنیٰ ہے تو اُنہیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باقاعدگی سے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے چاہئیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فری لانسنگ کمیونٹی میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے کہ ٹیکس گوشوارے جمع کروانا کیوں ضروری ہے۔ فری لانسرز کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنی چاہئے کہ انہیں کہاں استثنیٰ ہے‘ ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے کیا فوائد کیا ہیں اور اس کے بعد اُن سے ٹیکس فائل کرنے کا تقاضا کرنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت آئی ٹی خدمات یا آئی ٹی کی مدد سے انجام دی گئی خدمات ایکسپورٹ کرنے کو دوہزارپچیس تک ٹیکس سے استثنیٰ ہے تو پھر ایف بی آر کیوں فری لانسرز کی غیر ملکی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا چاہتا ہے؟ سردست ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس)‘ کے میدان میں نوجوان طبع آزمائی کر رہے ہیں اور اُن کی محنت و مشقت میں اگر حکومت شریک نہیں تو فری لانس آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا زیادتی ہے۔