ماضی کی طرح تین مارچ کو ہونے والے سینٹ انتخابات میں پھر ”ہارس ٹریڈنگ“کے الزامات سامنے آئے‘سوال یہ ہے سینٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات میں تسلسل کیوں ہے اور شفاف اور غیر متنازعہ سینٹ انتخابات کس طرح یقینی بنائے جاسکتے ہیں؟سینٹ انتخابات میں بڑھتے ہوئے ”ہارس ٹریڈنگ“کی سب سے بڑی وجہ تقریباً سب پارٹیوں کی چنیدہ اخلاقیات ہیں۔ جس پارٹی کو بھی بے اصولی اور دھاندلی سے فائدہ ملنے کا امکان ہو وہ اسے کرنے سے نہیں ہچکچاتی اور جسے نقصان ہو وہ اس کی مخالفت کرتی ہے۔ کبھی کسی ایک پارٹی کی خوشی یا فریاد کی باری ہوتی ہے اور کبھی کسی دوسری کی لیکن اس واضح تضاد کے باوجود ہر پارٹی پروپیگنڈے کی طاقت سے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ اکثر پارٹیاں اپنے ارکان کھونے کے خدشے سے ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتیں۔ صرف پی ٹی آئی نے ہی 2018 ء میں اپنے چند ارکان کے خلاف اقدام کیا تھا۔ سینٹ انتخابات خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر اِس نظام پر صحیح عمل ہو تو نہ صرف ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستوں کے تناسب سے سینٹ میں نمائندگی ملے گی بلکہ اچھے لوگ بھی منتخب ہو سکیں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ووٹ دینے والا سینٹ کے ارکان یا چیئرمین کے انتخاب سے پہلے اپنی پارٹی کے ساتھ ہوتا ہے مگر اندر جاکر لالچ کے عوض مخالف امیدوار کو ووٹ دے جاتا ہے۔مثلاً اگست 2019 ء میں چونسٹھ ارکانِ سینٹ کی حامل حزب اختلاف نے چیئرمین سینٹ سنجرانی صاحب پر عدم اتحاد کی تحریک پیش کی۔ سنجرانی صاحب کی حمایت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی کر رہے تھے جن کے سینٹ میں چھتیس ارکان تھے۔ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے اپوزیشن کے چونسٹھ ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر قرارداد کی حمایت کی لیکن پھر خفیہ ووٹنگ میں پچاس ارکان نے قرارداد کا ساتھ دیا۔ گویا چودہ ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ اپوزیشن نے دھاندلی کی دہائیاں دیں جبکہ جیتنے والے خوشیاں مناتے رہے۔ اسی روز چھتیس ارکان والے حکومتی اتحاد نے ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو قرارداد کے حق میں بتیس ووٹ پڑے حالانکہ اتحاد کے ارکان چھتیس تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان ادھر ادھر ہوگئے تھے۔ مثلاً 2018 ء میں سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے بیس ایم پی ایز پر”ہارس ٹریڈنگ“ کا الزام لگا۔ پی ٹی آئی فریاد کرتی رہی اور چند پارٹیاں فتح کا جشن مناتی رہیں۔ مگر حیران کن طور پر پنجاب میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور چوالیس پہلی ترجیح اور دو دوسری ترجیح ووٹوں کے ساتھ سینٹ کی نشست جیت گئے باوجود یہ کہ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے 38 ارکان تھے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے 52 ارکان تھے لیکن وہ صرف ایک نشست جیت سکی جبکہ پی پی پی نے وہاں سے دس نشستیں جیت لیں۔ اب ایم کیو ایم دھاندلی کا واویلا کرتی رہی اور پی پی پی خوش تھی۔ تین مارچ کے سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد سے دو نشستیں ملنی چاہیئے تھیں لیکن پی ڈی ایم اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی غیر متوقع طور پر اس کی ایک نشست جیت گئی۔ سندھ میں پی پی پی کی چھ نشستیں بنتی تھیں وہ سات جیت گئی جبکہ جی ڈی اے اپنی ایک یقینی نشست سے محروم ہوگئی۔ بلوچستان میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بی این پی دونوں ایک ایک نشست سے محروم ہوگئیں۔ سینٹ میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو، اسحاق ڈار کے بغیر جو 2018 ء میں منتخب ہوئے تھے مگر تاحال حلف نہیں اٹھاسکے، اڑتالیس ارکان جبکہ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو سینتالیس ارکان کی حمایت حاصل ہے۔آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے مطابق سینٹ ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی نظام کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس دفعہ میں تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیوں کی پوزیشن کے تناسب سے ان کو نشستیں دینا ضروری نہیں تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ارکانِ سینٹ کا انتخاب لازمی ہے تو پھر خفیہ اور دوبارہ انتخاب کی بات کیوں کی گئی؟اس کا حل یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی کے ذریعے سینٹ نشستیں پْر کی جائیں یعنی پارٹیاں اپنے حصے کے ارکان نامزد کریں اور الیکشن کمیشن ان کا بطور ارکانِ سینٹ تقررنامہ جاری کرے۔ اس مقصد کے لئے آئین کی دفعہ 59 شق 2 میں ”واحد قابلِ انتقال ووٹ“ کی جگہ ”پارٹی سربراہ کی جانب سے نامزدگی“ کے الفاظ شامل کردیئے جائیں۔ نامزدگی کا یہ طریقہ قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے اپنایا گیا ہے تو یہاں کیوں اختیار نہیں کیا جاسکتا۔؟