اب تو ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے سال سے اوپر کا عرصہ بیت چکا ہے۔اس دوران میں ہم نے اس عالمی وباء کے ساتھ لڑتے ہوئے بہت سی جانیں گنوا دی ہیں۔ لیکن اگر اس بیماری کو فتح نہیں ملی تو اس کو شکست بھی تو نہیں ہوئی۔ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ سال بھر میں ہم لوگوں نے کووڈ انیس کے تحت وہ برے دن دیکھے ہیں کہ لاشیں الگ گریں اور روٹی پانی جدا سوکھ گیا۔ لوگ بے رزگار ہوئے اور ایسے کہ خودکشیاں تک رپورٹ ہوئیں۔ اس بیماری کا سب سے بڑا اٹیک تو سکول کالج پر ہوا۔ طالب علموں نے کتاب پڑھنے کے معاملے میں اپنے اپنے اداروں میں پائیداری تو دیکھی ہی نہیں۔سکول کبھی کھلے تو کبھی بند ہوگئے۔اگر کوروناکے شکارلوگوں کی شرح میں کمی ہوئی تو پھراداروں کے مین گیٹ کھلناشروع ہوئے۔مگر تھوڑے ہی عرصے بعد دوبارہ سے دروازوں کو تالا لگا دیا گیا۔ معاملہ عام آدمی کی سمجھ میں تو کیا آئے گا۔ خودمیڈیکل اہلکار بھی عاجز آ چکے ہیں کہ اس کی روک تھام کیسے کی جائے۔ بس علاج یہی ہے کہ فاصلہ رکھو ہاتھ نہ ملاؤ پھر کھانسی ہو نہ چھینک آئے۔شروع میں تو اس بیماری کا ایک ٹہکا تھا۔ ایک خوف جو گلی کوچے میں گھومتا رہا۔ لوگ دبک کرگھروں میں قید ہو گئے تھے۔اپنے اپنوں سے دور تھے۔ جدائیاں مقدر بن گئی تھیں۔ اب بھی وہی شرح ہے۔مگر اب بیماری کا خوف ختم ہو گیا ہے۔مگر جو لوگ نفسیاتی طور پر بیمار ہوئے وہ تو اب مستقل قرنطینہ میں ہیں۔حالانکہ صحت مند ہو چکے ہیں۔ مگر ایسے ڈرے کہ نہ کسی سے ملتے ہیں اور نہ ہی کسی سے بات کرتے ہیں۔ مگر اب حال یہ ہے کہ وہی کورونا کے کاری وار ہیں اور اس سے خوف اور ڈرنا ختم ہوچکا ہے۔زندگی اپنے معمول پر آ چکی ہے۔اب کورونا کی وجہ سے اموات کے ہوتے سوتے بعض اس کو جھوٹ خیال کرتے ہیں۔ ابھی تک اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں اس کی شکل صاف نہیں ہوئی۔ اتنا بھی کہ بعض لوگ کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بیماری موجود نہیں ہے۔ مگر جو جانتے ہیں وہ کورونا سے ڈرے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے باوجو د کہ یہ وائرس ان سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ مگر یہ لوگ اس سے الرجک بھی تو نہیں۔اپنا مز ے سے دفتروں کو آتے جاتے ہیں۔ گھومتے پھرتے ہیں۔ گلی محلہ یا اپنا ہو یا دوسرا شہر ہو دھڑلے سے گئے اور آئے۔ کسی کو کورونا نے آن دبوچا تو خیر وگرنہ عام لوگ تو اب اس کے ساتھ جیسے بچپن سے اب تک کھیل کود کر بڑے ہوئے ہیں۔کہتے ہیں کم از کم ماسک ہی پہن لو اس سے بیماری بہت حد تک کم ہو جائے گی۔ بہت سمجھ دار لوگ بڑے افسر پڑھے لکھے سرمایہ دار سب ا س کی تکلیف سے واقف ہونے کے باجود اب اس کی پروا نہیں کرتے۔ وہ لوگ نہ تو ماسک پہنتے ہیں اور نہ ہی اس بات سے پیچھے ہٹتے ہیں کہ کسی سے ہاتھ نہ ملائیں۔ سماجی دوری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سمارٹ لاک ڈاؤن سپاٹ لاک ڈاؤن تو جاری ہیں مگر جس علاقے میں لگتے ہیں وہا ں بھی اب اس وائرس کا رعب نہیں رہا۔اپنا مزے سے زندگیاں گزر رہی ہیں۔ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ کسی نے ماسک پہناہو۔اگر پہنا ہے تو کسی ادارے میں ضرور پہنا ہوگا۔ وہ بھی دکھانے کے لئے منہ پر چڑھا رکھا ہے۔پبلک کے اکٹھ کے جو مقامات ہیں وہاں صاف طور پر اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ لگتا ہے کہ عوام کو حکومت کی منع کرنے کی ہدایات پر اعتبار ہی نہیں رہا۔لوگوں کے پاس ایسی ایسی دلیلیں اور ثبوت ہیں کہ آدمی سن کر دانتوں تلے انگلیاں داب لے۔ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ان دنوں کورونا کی ستم گری تو ویسے کی ویسے جاری ہے؛مگر اس پر کسی کو اعتبار نہیں۔ یعنی یہ کہ کورونا کہیں موجود نہیں۔ دوسری طرف تیسری لہر کا بھی شہرہ ہے یا شاید شوشا ہے مگر تیسری لہر کی وجہ سے معاملہ کی گھمبیرتا اوربڑھ گئی ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ اس بیماری کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا وائرس اپنی شکل بدل لیتا ہے۔ہم اسے جس شکل میں دیکھ کر پہچان لیتے ہیں پھر مریضوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔اگر کسی نئے مریض میں یہ علامات نہ ہو ں تو ہم اسے جھٹ سے کورونا فری قرار دے دیتے ہیں۔ مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جس کو ہم نے کورونا نیگٹیو کہاتھا وہ تو اصل میں پازیٹوتھا۔ اب کے تو بچوں نے بھی وہ سستی او ر کاہلی دکھلائی ہے کہ جب دو دن پہلے تیسری بار سکول نئے سرے سے بند ہونے کی اطلاع اخبار میں شائع ہوئی بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔وہ پھولے نہیں سما رہے۔ کیونکہ گھرمیں ان کو اتنی انٹر ٹینمٹ حاصل ہے کہ وہ سکول نہ جا کر انجوائے کر تے ہیں۔ مگر غور سے دیکھیں تو بچوں کی یہ خوشی ہمارے تعلیمی نظام پر بہت بڑ ا سوال ہے۔وہ یہ کہ بچے ایسا کیوں کر تے ہیں۔ کیا ہمارے تعلیمی نظام میں کہیں کوئی خرابی ہے یا خرابیاں ہیں کہ جن کو دور کرکے ہم بچوں کو سکول کی طرف کشش دلاسکیں۔ایسے کہ پھر اگرکسی وجہ سے سکول بند ہو ں تو بچے رو پڑیں۔