گیارہ مارچ دوہزاراکیس کے روز پشاور ہائی کورٹ نے ”ٹک ٹاک (TikTok)“ نامی ”مختصر دورانئے کی ویڈیو شیئرنگ ایپلیکیشن“کو ملک بھر میں بند کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان نے ٹک ٹاک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ ڈپٹی اٹارنی جنرل اور درخواست گزار وکیل نازش مظفر اور سارہ علی عدالت میں پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ 1: ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہے وہ ہمارے معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ 2: ٹک ٹاک ویڈیوز سے پاکستانی معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے۔ 3: سب سے زیادہ نوجوان طبقہ متاثر ہو رہا ہے اور 4: ٹک ٹاک کے بارے میں جو رپورٹ مل رہی ہے وہ افسوسناک ہے۔ دوران سماعت ایک موقع پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ڈائریکٹر جنرل پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ ٹک ٹاک کا دفتر کہاں ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اِس کا صدر دفتر سنگاپور میں ہے اور پاکستان سے متعلق اِس کے تکنیکی امور دبئی (متحدہ عرب امارات) سے کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ قواعد و ضوابط کے تحت کسی بھی غیرملکی سافٹ وئر کمپنی کو اُس وقت تک پاکستان کے صارفین تک رسائی نہیں دی جا سکتی جب تک وہ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم نہ کرے اور پاکستان کے مخصوص سماجی و ثقافتی تناظرکو مدنظر نہ رکھے۔ یہ کام ’پی ٹی اے‘ کو خود ہی کرنا چاہئے تھا کرنا تھا جسے کسی بھی سافٹ وئر تک قومی رسائی ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اگر ٹک ٹاک ’پی ٹی اے‘ کی درخواستوں کو خاطرخواہ توجہ سے نہیں سن رہا تھا جیسا کہ پشاور ہائی کورٹ کو بتایا گیا تو اُس کے خلاف فوری کاروائی ہونی چاہئے تھی۔ ذہن نشین رہے کہ قبل ازیں 9 اکتوبر 2020ء’پی ٹی اے‘ نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی تھی لیکن اِسے محض زبانی یقین دہانی پر ہٹا لیا گیا۔ ٹک ٹاک کو بند کرنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک مقدمہ زیرسماعت رہا۔ جولائی دوہزاربیس میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ٹاک ٹاک کی وجہ سے 10 سے زائد افراد کی اموات ہو چکی ہیں‘ اِس لئے ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی عائد کی جائے۔ درخواست گزار کا مو¿قف تھا کہ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن سوشل میڈیا پر ریٹنگ اور شہرت کےلئے پورنوگرافی (فحش مواد) پھیلانے کا ذریعہ بھی ہے۔انٹرنیٹ خیر محض ہے۔ یہ اپنی ذات میں نہ اچھائی ہے اور نہ ہی بُرائی لیکن اِس کے ذریعے خدمات فراہم کرنے والے اداروں اور استفادہ کرنے والوں کے انفرادی و اجتماعی عمل پر منحصر ہے کہ وہ معلومات اور تفریح طبع کے اِس ذریعے کا کس قدر سنجیدہ (ذمہ دارانہ) یا غیرسنجیدہ (غیرذمہ دارانہ) استعمال کرتے ہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ٹک ٹاک صرف ایسی ایپ نہیں جس پر فحش اور پرتشدد مواد کی کھلے عام تشہیر ہوتی ہے بلکہ ایسی دیگر سینکڑوں ایپس (apps) ہیں جو اپنے صارفین کو ٹک ٹاک سے ملتی جلتی خدمات فراہم کر رہی ہیںٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی اُن تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کی پاکستانی صارفین تک رسائی ختم کر دے جن کے پاکستان میں دفاتر موجود نہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ غیرملکی کمپنیوں کو پاکستان کے تشخص یا سماجی و مذہبی اقدار سے کوئی غرض نہیں لیکن انہیں صرف اور صرف اپنے کاروباری فائدے (اشتہارات کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کمائی) سے غرض ہے یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ ٹک ٹاک کو مقبول بنانے اور صارفین کی پسند (searches) کو مدنظر کمپنی کی جانب سے بھی ویڈیوز تخلیق کی جاتی ہیں‘ جنہیں فرضی صارفین کے ناموں سے مشتہر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات و تناظر میں جملہ سوشل میڈیا ایپس کی نگرانی اور شکایات درج کرانے کا مو¿ثر و فعال نظام بھی وضع ہونا چاہئے۔