بہارمیں کیا کیا پھول کھلیں گے اور اس موسمِ گل میں کیا گل کھلیں گے۔ سرِ عام سرِ شام مگرنگاہ رو برو نہیں۔ آنکھ سوئے آسمان ہے۔کہیں اور دھیان ہے ۔ بچہ بچہ پریشان ۔سڑک پر چوراہے پر سرگرداں ہے ۔ تیز قدموں ایک دوسرے کے پیچھے سر بہ گریباں ہے ۔کیونکہ سروں کے اوپر کٹی ہوئی پتنگ رواں ہے ۔ جانے کہا ںجا کے گرے ۔مگر ہر ہاتھ ہر دل اس خواہش میں غلطاں ہے کہ اسے جا لے ۔پتنگ لوٹ لے ۔ پھر اس میں بچوں کا بھی تو شوق ملوث نہیں ۔اس ہولی کے رنگ کے چھینٹے ہر کوئی اپنے اوپر لینے کو تیار ہیں۔ چوک میں کہیں چورستے میں رکی کاروں کا درمیان ہے ۔شہری بلا تخصیص بچہ و کلاں ہے ۔ موٹرکاروں کے اوپر سے پھلانگ رہے ہیں ۔ کوئی ادھر گرا کوئی اُدھر گرا۔ مگر اس کٹی ہوئی پتنگ کو نوچنے کھسوٹنے کےلئے ہمہ وقت تیار ہیں ۔اگرچہ چند روپے اس کی قیمت ہو مگر جو نشہ پتنگ لوٹ کر حاصل کرنے میں ہے وہ خرید کر اڑانے میں کہاں ۔ہوا چل نکلی ہے بلکہ چل پڑی ہے ۔بہار نے اپنے لا¶ لشکر کے ساتھ بھرپور حملہ آوری کر د ی ۔دل دماغ معطر ہونے لگے ۔روح تازہ اور بالیدہ ہے ۔ جن کو پتنگ بازی کا شوق دامن گیر ہے ۔ وہ گھر میں مقید ہے اور راہگیر ہے ۔پتنگ اگر نیچے زمین پر کسی ایک کے ہاتھ لگ بھی جائے تو باقی کے امیدوار اس کو حاصل کرنے اس کو دوسرے کے ہاتھ سے نوچ کر چھین لینا چاہتے ہیں۔ جب اتنے ہاتھ پڑیں تو پتنگ پرزے پرزے ہو جاتی ہے۔کسی ایک کو بھی بھرپوراور مکمل طور پر ہاتھ نہیں آتی۔ کسی کے ہاتھ اس کی ڈور آئی اور کسی کے ہاتھ اس کاکاغذی پیرہن آگیا۔ اس وقت غالب کا شعر یاد آتا ہے” نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا ۔کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا “۔پتنگ کی فریاد وہی سن سکتے ہیں جو من کے سچے ہیں ۔یہ کاغذی جسم کہتا ہے کہ مجھے بنایا ہی کیوں کہ اب میرے ٹکڑے اڑانے لگے ہو ۔صاحبان بہار ہے ہوا ہے اور بارش کے ننھے قطرے ہیں ۔ موسم جاں فزا ہے ۔ایسے میں اس آب وہوا پر اس فضا پر ویسے ہی نثار ہونے کو جی کر تا ہے ۔بہار کی اپنی شناخت ہے جو ان دنوں وہی محسوس کرتے ہیں جو موسموں کے شناور ہیں ۔پتنگوں کی لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے۔خرید وفروخت ہو رہی ہے ۔مہنگے داموں بارگیننگ ہے ۔ایک کہتا ہے میرے ہاتھ چڑھے دوسرا خود اس کو ہتھیانا چاہتاہے ۔مگر یہ کٹی ہوئی پتنگ کس کے نصیب میں ہے کون جانے۔ مگر جو لوٹ کر لاتاہے وہ بھی تو اڑا نہیں سکتا ۔ اس کے ہاتھ سے بھی تو کہیں پیچا پڑ جائے تو کٹ کر کسی او رمنڈھیر پر جا گرتی ہے کہیں سرِبازار سروں پر ناچتی ہے ۔” پتنگ لوٹ کے لائے مگر اڑا نہ سکے“۔( سجاد بابر)۔ پتنگے اڑتے ہیںاو رپتنگیں اڑائی جاتی ہے ۔ ان دنوں ہواکا رخ تیز ہے ۔کنکوے اڑانے والے شوقین پتنگ بازی کے بغیر رہ نہ سکیں گے۔ مگر ان کو معلوم کہاں کہ اس ڈور سے الجھ کر کئی جانیں جا چکی ہےں۔ سو اے دوستو شہر کی ہوا اب مشکل سے راس آتی ہے۔اپنا خیال کرنا ہوگا اپنے بچوں کی طرف دھیان کرنا ہوگا جو آپ کے ساتھ موٹر بائیک کی ٹینکی پر سوار ہیں۔جانے کس طرف سے آکر کسی طرف کو جانے والی کٹی پتنگ کی ڈور کس کے گلے پرگھوم جائے۔ یہ لوگ باز نہیں آئیں گے پتنگ کی خرید و فروخت باوجو دپابندی کے جاری رہے گی اور بیچنے والے بیچ دیں گے اور خریدنے والے اڑا لے جائیں گے ۔اس زد میں جس بے گناہ نے آنا ہوا ہو بچہ ہوکہ جوان بڑا ہو کہ بوڑھا اپنا گلااس کے ہیر پھیر پر رکھ دے گا جان سے جائے گا معلوم بھی نہ ہوگا ۔خون کی دھاری سرِگریباں چمکے گی ایک جان ایک اوربھی سرِ عام اپنے لہو کا پرچم بچھا دے گی کہیں جو شادی بیاہ میں ہوائی فائرنگ ہوئی تو اس کی گولی زمینِ چمن پر کس کے خون سے رنگین ہوجائے گی۔ہم تو خو د کو تفریح بہم پہنچانا چاہتے ہیں۔ تفریح کبھی تو افر اتفری کے نام پر ہوتی ہے ۔ایک کے ہاتھ میں ایک کا گریبان دوسرے کے ہاتھ میں تیسرے کی ٹانگ پکڑی ہے ۔ایک دوسرے کی کھینچا تانی میں ملوث ہیں۔ ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں کے ہمارے راستہ دکھلانے والوں کو اپنی پڑی ہے۔وہ اپنا راستہ سیدھاکرناچاہتے ہیں ۔پھلے جو پیچھے آنا چاہتے ہیں وہ گہری کھائی میں گر جائیں۔ مگر ان کو اپنے قافلے کے اراکین کی کیا پروا۔ وہ تو اپنا راستہ ناپنا چاہتے ہیں ۔ہر قدم پر زمین میں پا¶ںمار کر پانی تو نہیں سونا نکالنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا گھر بھر جائے ۔ دوسرا اگر مر جائے تو کیا ہوا بس مر جائے ۔جل جائے سڑ جائے ان کی بلاکو بھی پروا نہ ہوگی۔ان کے دل میں آہ نہ ہوگی۔