امریکہ کی نئی مشرق وسطیٰ پالیسی۔۔۔

امریکہ کے اہلِ حل و عقد اور بہت سے امریکیوں کا استدلال ہے کہ اب امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے ہاتھ کھینچ کر روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو روکنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ چنانچہ اپنے دو پیش رو امریکی صدور بارک اوبامہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح جو بائیڈن بھی مشرق وسطیٰ کو اب امریکہ کے لئے بوجھ سمجھتے اور اسے اتار پھینکنا چاہتے ہیں مگر بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے مشرق وسطیٰ بارے امریکہ کے کندھوں سے بوجھ تو ہلکا ہو جائے لیکن وہاں امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے بنیادی مفادات سعودی تیل کی مسلسل فراہمی اور اسرائیل کی حفاظت تھے۔ اب ان دونوں بارے تشویش کم ہوگئی ہے۔ امریکہ اب میکسیکو سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے اور خود بھی تیل پیداواربرآمد کرتا ہے جبکہ عرب ممالک سے سفارتی تعلقات کے بعد اسرائیل کو خطرہ بھی کم ہوگیا ہے۔سابق امریکی صدر اوبامہ بھی مشرق وسطیٰ چھوڑنا چاہتے تھے مگر بعض وجوہات کی بناءپر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے اسی طرح سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ”ہمیشہ کی جنگوں“سے چھٹکارا پانے کی خواہش کے باوجود خلیج میں چودہ ہزار فوج بھیجی مگر آخری دنوں میں شام اور عراق سے فوج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ اب موجودہ صدر بائیڈن نے پچھلے پانچ صدور کے برعکس ابھی تک اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن عمل میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ امریکی محکمہ دفاع بھی خلیج میں امریکی تعیناتیوں کا جائزہ لے رہی ہے اور امکان ہے کہ خطے کے بارے میں امریکی پالیسی ماضی سے کافی مختلف ہو جائے گی۔ صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو اپنی صدارت کے تقریباً ایک مہینہ بعد 17 فروری کو اور سعودی عرب کے شاہ سلمان کو اس کے ایک ہفتے بعد فون کیا مگر ساتھ ہی ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے والی رپورٹ جاری کردی۔ امریکہ دنیا بھر اور خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں فوجی کاروائیوں، دھونس اور پابندیوں پر زیادہ انحصار کرتا رہا ہے۔امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی عموماً مگر صدر ٹرمپ کے دور میں خصوصاً مکمل طور پر اسرائیل نواز تھی۔ بائیڈن انتظامیہ کو اب سابق صدر ٹرمپ دور کے جنوری 2020 ءکے ”امن برائے خوشحالی منصوبہ“جیسے منصوبوں اور اسرائیل کو آبادکاری سے روکنے کے لئے ویٹو طاقت کا استعمال ختم کرنا اور انصاف سے کام لینا ہوگا۔ اقوام متحدہ نے قحط کی وجہ سے یمن کو دنیا کا بدترین انسانی المیہ قرار دیاہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ مختلف فوری اقدامات کرکے یمن میں امن معاہدہ کے ذریعے دیرپا امن قائم کیاجائے۔ امریکہ لبنان کی مضبوطی اور سلامتی کو اولین ترجیح بنائے اورملک کو غربت اور قحط سے بچانے میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ امریکہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنا اور 2015 ءکا معاہدہ بحال کرنا چاہتا ہے مگر اس کا جلد امکان نہیں۔ لیکن اگر احترام، اعتماد اور مفاہمت کے جذبے کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں تو سب کچھ ممکن ہے۔عراق میں حکومت معاشی بحران سے لڑ رہی ہے، احتجاج کے امکانات بڑھ چکے ہیں اور داعش بھی عدم استحکام کے لئے کوشاں ہے۔ اس لئے یہاں بھی امریکہ کو سب فریقوں سے بہتر تعلقات قائم کرنے، داعش سے برسرپیکار تمام مسلح گروہوں کے ساتھ تصادم سے گریز کرنے اور عراقی جنگجوﺅں کو سکیورٹی فورسز میں شامل کرنے کی حکومتی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اسے وہاں اکتوبر میں متوقع انتخابات کو آزادانہ اور شفاف یقینی بنانا ہوگا اور عراقی حکومت کو پرامن احتجاج برداشت کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔ادھر لیبیا میں بھی دس سال پہلے نیٹو کی کاروائی کے نتیجے میں صدر معمر قذافی کا اقتدار تو ختم ہوگیا مگر ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ وہاں ترکی کی حمایت یافتہ حکومت اور مصر، یو اے ای اور روس کی حمایت یافتہ فیلڈ مارشل حفتار کی فوج کے درمیان جنگ جاری رہی۔ اب اکتوبر سے جنگ بندی ہوگئی ہے لیکن وہ بھی خطرے میں ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اقوام متحدہ کے ذریعے کوشش کرکے جنگ بندی اور تیل کی ترسیل پر نیا معاہدہ کروائے۔ظاہر ہے امریکہ خطے کو اپنے حال پر چھوڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مگر وہ فوجی مداخلت کی جگہ ماہرانہ سفارت کاری اور دیگر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے تعاون سے کوششیں جاری رکھے گا۔ صدر بائیڈن سمجھتے ہیں خطے میں امریکہ کے دیرینہ اتحاد توڑنے سے مشرق وسطیٰ غیر مستحکم ہوجائے گاجس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہی ہوگا ۔ اس کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اتحادی اپنی سلامتی کے لئے امریکہ پر انحصار کم کرنا سیکھیں۔دراصل امریکہ گاجر اور چھڑی یعنی تعریف و تنبیہہ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور کسی بھی وقت وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔