سالانہ امتحان کا نتیجہ۔۔۔

اس کا فائنل ٹرم کا رزلٹ آیا ہے ‘ اس بار وہ خیر سے گیارہویں پوزیشن پر آئی ہے ۔چلو گیارہ نمبر بھی اچھا ہے ۔ مگر پچھلے سال وہ کلاس میں اول کیوں آئی تھی۔ پھر اس بار توقع بھی یہی تھی۔ کیونکہ ٹک ٹاک نے جہاں دنیا بھر میں قیامت ڈھا رکھی ہے وہاں یہ ایپ اس گھرانے کی بچی پر بھی اثر انداز ہوئی ہے ۔اصل میں سال پہلے ہی اس کی ضد کو اس کی امی نے سامنے رکھا تھا۔ اس کو بیش قیمت موبائل لے کر دیا تھا حالانکہ ابو نے کہا تھا کہ جو کم قیمت ٹچ موبائل اس کے پاس ہے وہ کافی ہے مگر بیٹی کسی چیز کا کہہ دے اور امی اس فرمائش کو پورا نہ کرے ۔ایسا تو خود امی کے سکول کے وقت اس کی نویں کلاس کے کورس کی کتاب میں نہ تھا۔یہ ٹی وی والے بھی نا۔ اب کیا کہوں ۔ نت نئے اشتہار جاری کرتے ہیں ۔ پھر انداز وہ دلفریب ہوتا ہے کہ بھلا چنگا آدمی دھوکا کھا جائے ۔ وہ ان کی پراڈکٹ لے تو لیتا ہے مگر مکھی کی طرح افسوس کے ہاتھ ملتا ہے ۔نئے اور مہنگے موبائل کے ہاتھ میں آ جانے سے طبیعت خوشحال تو ہوجاتی ہے مگر چڑیاں چگ گئیں کھیت والی بات ہے ۔ٹی وی سکرین پر موبائل کے ایڈ تو بڑے بوڑھوں کو بے کل کر دیتے ہیں۔ وہ پیسٹری کی طرح کہ سامنے پڑی ہو اور بچے سے ماں کہہ دے مہمان چلے جائیں تو کھا لینا۔وہ سینئر لوگ موبائل کو ٹی وی پر دیکھ کراسی طرح پریشان ہو جاتے ہیں‘ ہابی ہوتی ہے ‘ بعض کا یہ مشغلہ کافی روپوں کے زیاں کا باعث بنتا ہے ۔خیر زندگی ہے تو پھر اس قسم کے با¶نسر توسامنے آتے ہیں ۔ مگر کوشش ہو کہ با¶نسر جسم کو لگ نہ جائے لیکن بندہ خود بجلی کی ننگی تاروں میں ہاتھ مارے اور اس کو کرنٹ چھو جائے تو اس میں برقی رو کا کیا دوش۔بھلا چنگا ٹھیک ٹھاک آدمی ٹک ٹاک بناتے سردریاب میں چھلانگ لگا دے ۔ وہ لہروں کی نذر ہو جائے تو اس میں دریا کا کیا قصور۔سالانہ امتحان میں گیارہویں پوزیشن بھی تو ایک پوزیشن ہے ۔اگر آخری نمبروں میں آتی تو اور بھی برا ہوتا ۔ سو یہ اچھا ہوا کہ اس طرح برا نہ ہوا۔ کسی کو کہہ تو سکتے ہیں کہ گیارہ پوزیشن ملی ہے ۔ پھر ثبوت کے طور پر رپور ٹ کارڈ دکھادینا تو کہیں گیا نہیں۔اسی کی بڑی بہن کا چھوٹا بیٹا ہے ۔کلاس میں تینتیس نمبر پر آیا ہے ۔اس بچے سے تو بدرجہا بہتر ہے ۔اب سکول والے بھی کیا کریں۔ کمپیوٹر کا زمانہ ہے اور نمبروں کا کھیل ہے ۔ انھوں نے تو فی صد نکال کر شرح بتلانی ہے ۔ خواہ کوئی سوویںنمبر پرکیوں نہ آئے ۔ ہم خود دو بھائی اپنی گلی کی سکول میں کلاس فائیوو میں داخل تھے ۔جب رزلٹ آیا تو کمال ملاحظہ ہوکہ مجھ سے چھوٹا پہلے نمبر پر آیا اور میں دوسرے نمبر پر تھا ۔اب انھوں نے اپنے رزلٹ کارڈ بھی تو بچوں کے ماں باپ کو دکھانا ہوتے ہیں۔ ہاں یہ بات چھوڑیں کہ کلاس میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی تو نہیں تھا۔ میں تو کالج میں استاد بن گیا اور چھوٹا بھائی نیشنل بنک انجینئرنگ میںاسی اولیت کے سبب اے وی پی ہے ۔ اسی سے دل کو ڈھارس ملتی ہے کہ گیارہویں پوزیشن بری نہیں ۔بڑی گرانڈیل شخصیات گزری ہیں۔ ایک کو تو سکول سے نکال کر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ ماں کو کہا اس کو گھر بٹھائیں یہ پڑھنے میں زیرو سے بھی نیچے ہے۔پھر وقت نے ثابت کیا کہ اس نے بہت بڑا سائنس دان بننا تھا ۔ جس نے اپنے ساتھ کے ہر سائنسدان کو گھر بٹھا دیا۔پھر ہمارے ہاں بھی ایسے نامی گرامی شاعر گزرے ہیں۔ جو ایم اے فلسفہ کی کلاس میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ۔ ان کو باقاعدہ گولڈ میڈل بھی ملا کیونکہ وہ پہلی پوزیشن پر آئے تھے۔ پھر کیوں نہ آتے کہ کلاس میں صرف وہی تو ایک طالب علم تھا۔ وہ فرسٹ نہ آتے تو کون آتا۔ مگر وہ اب بھی برسوں بیت گئے پہلی پوزیشن پر ہیں۔ ان جیسا کوئی ہو کر تو بتلائے ۔اگر کوئی کم از کم اس کے برابر کا ہوتا تواس کا کلاس فیلو تو ہوتا۔ پھر اقبال مندی دیکھیں کہ اگر وہ ستاروں سے آگے نہیں تو ستاروں سے نیچے چمکتے دمکتے سورج کی شعاعوں کو گرفتا رکر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔میں نے کہا تم جس رفتارسے ٹک ٹاک کی ایپ میں فلمی ستاروں سے آگے جانے کی پوزیشن میں ہو ۔اس سے لگتا ہے کہ آئندہ سال کلاس میں تمھاری بائیسویں پوزیشن آئے گی۔ ہر چند کہ جماعت میں اکیس بچیاں کیوں نہ ہو ں۔ یہ پوزیشن تمھارے لئے یاد رکھنے کا ایک سبق ہے ۔ اگر اپنی مصروفیات میں سے موبائل کو نکال نہیں سکتی تو خود کو اس کی سکرین میںسے اس وقت تک نکالے رکھو جب تک کسی بڑے اونچے علم کے دروازے کے اندر داخل نہ ہو جا¶۔ابھی تمھاری عمر کیا ہے بلکہ عمریا کہوں ۔پچھلی بار تو تم اس ٹینشن میں تھی کہ کہیں دوسرے نمبر پر نہ آجا¶ں ۔ اسی غم میں ننھی سی جان کو روگ لگا لیاتھا۔ پھر تم اول نمبر کا انعام لے آئیں۔ چلو اس بار اگر ایک نمبر نہیں تو ایک اور پھر ایک دو بار ملا ہے ۔ جسے گیارہ کیوں بنا¶ جمع کر کے دو بنا لو ۔ دوسری پوزیشن بھی تو برا نہیں ۔