اسلا م اباد سے کر اچی تک تجا رت ، معیشت اور معا شیا ت کے حوا لے سے جو خبریں گردش کر رہی ہیں ان میں بڑی خبر یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے اختیار ات اور انتظا می ڈھا نچے پر نئے سرے سے غور ہو رہا ہے فنا نشل ایکشن ٹا سک فورس کی جو تلوار جون 2021تک ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اس تلوار سے اپنی جا ن بچا نے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم سٹیٹ بینک اور ملک کے دیگر ما لیا تی اداروں کا قبلہ درست کریں اس طرح ہما ری جان بھی سلا مت رہے گی چمڑی بھی سلا مت رہے گی اس حوا لے سے سٹیٹ بینک کے سابق گور نر ڈاکٹر عشرت حسین اور وزیر خزا نہ عبد الحفیظ شیخ نے اصلا حا ت کا ایک پیکیج متعارف کرا یا ہے اس پیکیج میں 50کے قریب اصلا حا ت ہیں جنکی نوعیت فنی اور تکنیکی ہے اردو میں ان کا تر جمہ بھی مشکل ہے عوام کی سمجھ سے بھی وہ با ہر ہیں تین سادہ باتیں جو کہی گئی ہیں ان کا خلا صہ یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کا گور نر پر و فیشنل ہو گا ، ڈپٹی گور نر بھی پرو فیشنل ہو گا گور نر اور ڈپٹی گور نر سٹیٹ بینک کے آفیسروں میں سے نہیں ہو نگے سول سروس کے آفیسر وں میں سے بھی نہیں ہو نگے یہ پر و فیشنل بند ے ہو نگے ان کی مد ت 5سال ہو گی اس وقت مختلف ما لیاتی ادارے معا شی پالیسیوں پر کا م کرتے ہیں ان اداروں کو بند کر دیا جا ئے گا ان کی جگہ نئے ادارے بنائے جا ئینگے ۔نئے ما لیا تی اداروں کا انتظام و انصرام پروفیشنل لو گوں کے ہا تھوں میں ہو گا مئی 2021ءمیں فیٹف کی ٹیم پا کستان آئے گی تو ہمارے روا یتی آفیسروں کی جگہ نئے پر وفیشنل لو گ ان کے ساتھ بات چیت کریں گے۔دنیا میں پرو فیشنل کے دو اور بھی نا م ہیں ایک نا م ایڈ وائزر ہے دوسرا نا م کنسلٹنٹ ہے دو نوں نا موں کا اردو تر جمہ مشیر ہے جبکہ پر و فیشنل کا اردو متبا دل ” ما ہر “ ہے‘اب دیکھا جائے تو الفاظ کے گورک دھندے میں پڑے بغیر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نام بدلنے سے کچھ نہیں بدلنا ، ماہر ہو ،یا پروفیشنل ہمیں مطلب معاملات کے سلجھنے سے ہے ۔ اصلاحات کا مطلب پہلے سے موجود ڈھانچے کو اس طرح تربیت دینا ہوتا ہے کہ جس سے امور تیزی سے نمٹانے میں مدد ملے اور خاص طور پر وہ امور جن کا تعلق عوام کو خدمات کی فراہمی اور ان کو دستیاب سہولیا ت اور ضروریات کے معیار کو بلند کرنا ہے ۔ ویسے افریقہ اور ایشیاءکے کئی ممالک ایسے بھی ہیں جن کو بین الاقوامی اداروں کے مطالبے پر ماہرین اور پروفیشنلز کی خدمات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا تاہم ان کی حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ گئی اور اب بھی وہ ممالک مقروض ہیں اور ترقی کو ترستے ہیں۔ خلوص نیت اور لگن سے جو بھی کام کرے وہ ماہر ہو یا پروفیشنل یا پھر ہمارے روایتی آفیسر وہ کایہ پلٹ سکتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وسائل کم تھے۔ سرکاری دفتروں میںپوری سٹیشنری بھی دستیاب نہیں تھی ، فرنیچر بھی ندارد جیسے تیسے کام چلایا گیا مگر خلوص نیت اور ملکی ترقی کا ہدف سامنے رکھا گیا تھا اسلئے پاکستان کے ادارے نہ صرف خود مثالی تھے بلکہ دیگر کئی ممالک کے اداروں کو تشکیل دینے میں بھی مدد کی ۔جن میں آج کے چین اور سنگا پور جیسے ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ہمارے پانچ سالہ منصوبوں کی مثال دیکھ کر اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایک ایشیائی ملک نے ترقی کے منازل طے کئے ۔ ہماری قومی ائر لائنز نے کئی ممالک میں ائیر لائنز منظم کیں جن کا شمار آج کل دنیا کی بڑی ائرلائنز میں ہوتا ہے اور خود پی آئی اے کی حالت کیا ہوئی ہے یہ سب ہی جانتے ہیں۔ یہ کہانی پروفیشنل ، ماہر اور آفیسر سے زیادہ جانفشانی ،محنت لگن سے کام کرنےکی ہے۔ یہ کل بھی تھی‘ آج بھی ہے اور آنےوالے کل میں بھی ہوگی۔