نوجوانوں اور جوانوں کی تو خوب گزر رہی ہے۔ صحت کی بات کر رہاہوں۔ خدا کرے اسی طرح گزرے۔ مگر جب پچاس کے آس پاس ہوں تو بندہ کسی نہ کسی بیماری کے نرغے میں آہی جاتا ہے۔جو خطرناک بیماریاں ہیں وہ تو خداکرے دور رہیں۔ لیکن یہ جوشوگر ہے یا بلڈ پریشر ۔ یہ دونوں بندے کو کہیں کانہیں چھوڑتے۔نہ تو ٹھیک طریقے سے جینے دیتے ہیں نہ مرنے دیتے ہیں ۔جینا اور پرہیزی کھانے کھا کرجینا بھی کوئی جینا ہے ۔پھر اگر اپنی پسند کے روغنی کھانے اور میٹھی ڈشیں معدے میں پہنچائیں تو یہ بیماریاں انتقام پر اُتر آتی ہیں اور دم نکال کربر لبِ گور پہنچا تی ہیں اور دم لیتی ہیں۔شوگر کو تو خیر میڈیکل کی دنیا میں بیماری ہی نہیں سمجھا جاتا ۔لیکن شرط یہ کہ ساتھ اگرپرہیز کیا جائے او ردوا لی جائے۔بلڈ پریشر نے ازحد پریشان کر رکھا ہے۔شوگر تو بچو ں کو بھی ہو جاتا ہے ۔بلکہ بلڈ پریشر بھی نوجوانوں تک کو آن دبوچتا ہے ۔آ ج کل خدا جانے کس قسم کی ہوائیں چل پڑی ہیں کہ عمر میں بھی برکت اٹھ گئی ہے ۔پہلے پہل تو خاندان میں کہیں ایک آدھ بندے کے بارے میں جانکاری ملتی کہ فلاں علاقے میں فلاں بندہ انتقال کر گیاہے۔ اب تویوں روانی سے انتقالات ہو رہے ہیں کہ جیسے ہر ایک کوجانے کی جلدی ہے ۔کہیں کہیں اور کبھی کبھی سنا کرتے کہ فلاں کو شوگر ہے ۔ جس کو شوگر ہوتا وہ دل ہار دیتا۔ لیبارٹری سے ٹیسٹ رپورٹ لینے جاتا وہیںسے حیران و پریشان بہتے آنسو¶ں کے ساتھ فون کرتا سنتی ہو مجھے شوگر ہے۔ اس مرض کو بہت خطرناک تصور کیا جاتا۔اب تو ہر ساتویں بندے کو شوگر ہے۔ پھرٹی بی کے مرض کو لیں کتنے لوگ اس بیماری میں جان سے گئے۔حالانکہ اس کا اب کارگر او رسو فیصد علاج موجود ہے ۔ کتنے ہی بلڈ پریشر ہونے اور اس کے بارے میں خبر نہ ہونے سے فالج میں مبتلا ہوئے اور دل کے دورے کے کارن اور بیماریوں میں دنیا چھوڑ گئے ۔ اس زمانے میں بھی یہ تمام بیماریاں اپنی شد و مد سے ہوتی تھیں۔ مگر ان کے بارے میں مریض کو معلوم نہیں ہوتا تھا۔شوگر ہو تو ہو بلڈ پریشر بھی اگر ہو تو ہو۔ہمیں ان دونوں پر کیا اعتراض ۔ مگر مسئلہ کچھ اور ہے اور قابلِ غور ہے ۔ صاحبان بیاہ شادیاں ہو رہی ہیں۔ان دو بیماریوں کا تویہ ہے کہ دوا کھا¶ اورکام چلا¶۔ مگربلڈ پریشر کی دوا جہاں زندگی دیتی ہے وہاں اس کے کچھ مضر اثرات بھی کم کم سہی مگر پڑتے ہیں۔ خیر جانے دیں۔ مگر یہ جو پرہیز کرناہے یہ بہت مشکل ہے ۔خاص طور پر ولیمے کے کھانے اڑانے میں اور بارات کے خوانچے اپنی جانب گھسیٹنے میں ۔ پھرکسی نے چاول نہیں کھانا ۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے منع فر ما رکھا ہے ۔کسی نے گوشت تناول نہیں کرنا کہ معالج نے سختی سے ممنوع قرار دیا ہے ۔نہ کھا¶ تو الگ مسئلہ اور کھا لو تو بلڈ پریشر کے مسائل زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھلے نصیحت کریں۔ عمل کون کرتا ہے ۔وہاں ان کے کلینک میں جی جی کر کے سر ہلادیں گے ۔ تہیہ بھی کر لیں گے۔ دل میں کہیں گے۔ یار بس اب ان چیزوں سے دور رہو ۔مگر جب خوان سجے ہوئے آتے ہوں اور گہماگہمی ہو دوست یار اکٹھے ہوں اور شادی کی محفل میں سپیکر میں گانے چھن چھنا چھن بلکہ دھن دھنادھن سنائی پڑتے ہوں تو کون ظالم ہوگا جو میز پر رکھے چاولوں اور سفید گوشت کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے گا۔اسی لئے تو بڑی عید کے دنوں میں سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ بلڈ پریشر کے مریضوں سے لبالب بھر جاتے ہیں۔کوئی معدے کے مریض ہوتے ہیں اور کوئی شوگر زیادہ ہوجانے سے بھی لائے جاتے ہیں۔ توبہ توڑنے والے کابلی پلا¶ کے سامنے تو بڑے بڑوں کی زبان بند ہوجاتی ہے ۔بلکہ پلا¶ جس قسم کاہو اس کے کھانے والے ہر وقت ہر جگہ دستیاب ہو تے ہیں۔کراچی کی بریانی نے تو پشاور کے لوگوں کے منہ کا ذائقہ ہی بدل دیا ہے ۔ایک ولیمہ پر پہنچے ۔ ہمارے سامنے میز پر خوانچہ دھرا تھا۔ ہمارے ساتھ والے صاحب نے جیب سے بلڈ پریشر کی ہائی پاورکی گولی نکال کر کھائی اور اسکے بعد چاولوں پر پِل پڑے۔میں کیوں چپ رہوں ۔سوال تو کروںگا ۔کیونکہ ابھی تک طالب علم ہوں۔ کہا آپ نے گولی اس وقت کیوں نگل لی ۔ فرمایا میں بلڈ پریشر کی گولی حسبِ ضرورت کھاتا ہوں۔ روز نہیں کھاتا۔ مگر جب چاول کھاتا ہوں تب بھی چاولوں سے فوراًپہلے ہی پلتے سے گولی نکال کرنگل لیتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کی دونوں باتیں درست نہیں ۔