امریکہ کے افغان منصوبے میں کیا ہے؟۔۔

بائیڈن انتظامیہ نے افغان تنازعے کے سیاسی حل کےلئے سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں اور افغان حکومت اور طالبان کو مشترکہ عبوری حکومت اور دیگر امور پر مشتمل ایک مسودہ پیش کردیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس مسودے کے اہم نکات کیا ہیں۔یہ مسودہ امریکی سیکرٹری دفاع انتھونی بلنکن نے افغانستان کےلئے امریکی صدر کے مشیر زلمے خلیل زاد کے ذریعے ایک خط کے ساتھ افغان حکومت اور طالبان کو بھیجا ہے جس میں ان سے امن کی طرف تیز پیش قدمی اور عبوری حکومت پر اتفاق کرنے کا کہا گیا ہے۔بلنکن اپنے خط میں کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ افغانستان میں مفادات رکھنے والے ممالک امریکہ، روس، چین، ایران، پاکستان اور ہندوستان کو ایک ساتھ بٹھائے تاکہ ہر ایک بتائے وہ امن معاہدہ میں کیا دیکھنا چاہے گا کیونکہ ہمیں یقین ہے یہ ممالک مستحکم افغانستان میں یکساں دلچسپی رکھتے ہیں اور کامیابی کےلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔بلنکن کے خط میں تشدد میں 90 دن کی کمی اور اس کے بعد مستقل جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔جہاں تک مسودے کی بات ہے اس کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدے کے مسودے کا بنیادی مقصد مذاکرات کا آغاز ہے۔اس میں یاد دہانی اور سہولت کےلئے تین پہلوو¿ں یعنی افغانستان کے آئین اور افغان ریاست کے مستقبل کےلئے رہنما اصول‘ عبوری مدت کے دوران ملک پر حکمرانی کےلئے متفقہ شرائط اور آئینی تبدیلیاں کرنے، سلامتی، حکمرانی اور پائیدار اور منصفانہ معاہدے کا طریقہ کار اور مستقل اور جامع جنگ بندی اور اس کے نفاذ پر تجاویز اور اقتدار میں اشتراک کے مختلف آپشنز پیش کیے گئے ہیں جن پر افغان فریق حتمی فیصلہ کریں گے اور جن سے دونوں فریقوں کو ایک ایسے سیاسی تصفیے تک پہنچنے میں مدد ملے گی جس سے یہاں جنگ ختم ہو اور امن لوٹ آئے۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ اسلام افغانستان کا باضابطہ سرکاری مذہب ہوگا۔ مسودہ اسلامی اقدار کے تحفظ کا وعدہ کرتا ہے۔ اسلامی رہنمائی اور مشورے دینے کےلئے اسلامی فقہ کی ایک اعلی کونسل کی تجویز دی گئی ہے‘ آزاد عدلیہ کو حتمی اختیار اور اسلامی فقہ کی اعلی کونسل کا کردار مشاورتی ہوگا۔ اسے شاید ہی طالبان منظور کریں گے۔ افغانستان اپنے تمام نسلی گروہوں، قبائل اور مذہبی فرقوں کےلئے محفوظ مقام ہوگا‘ آئندہ کا آئین سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی امور میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی ضمانت دے گا، افغانستان کی قومی سیاسی قیادت منتخب کرنے کےلئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا اہتمام کرے گا جس میں تمام افغان شہریوں کو حصہ لینے کا حق ہوگا اور ایک ہی قومی حکومت کے تحت واحد، متحد اور مقتدر افغان ریاست قائم کرے گا جس میں متوازی حکومتیں یا متوازی فوجیں نہیں ہوں گی ‘ نیا آئین طالبان کے خاتمے کے بعد گذشتہ 20 سالوں میں حاصل کردہ حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گا۔ جب تک نیا آئین منظور نہیں ہوجاتا اور قومی انتخابات نہ ہوں تب تک ایک عبوری ”امن حکومت“کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو فریقین سے ”عدل کے اصول کے مطابق“ مقرر کردہ عہدیداروں پر مشتمل ہوگی اور حکومت کے سب محکموں میں خواتین اور تمام نسلی گروہوں کی معنی خیز شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا؛ اور سچائی اور مفاہمت کمیشن بھی بنایا جائے گا۔ آخر میں فریقین کےلئے مستقل جنگ بندی کی شرائط اور اس جنگ بندی کے نفاذ اور نگرانی کے نکات بیان کیے گئے ہیں۔ مسودے کے مطابق معاہدے پر دستخط ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد دونوں فریق لڑنا بند کردیں گے۔ 90 دن تک تشدد میں کمی کی جائے گی۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھنے کےلئے ایک آزاد کمیشن کے قیام کی بات بھی کی گئی ہے۔مسودے میںامن حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے جو نیا آئین لکھے گی اور ملک میں انتخابات کی نگرانی کرے گی۔ یہ امن حکومت عدلیہ اور انتظامیہ سمیت الگ لیکن مساوی شعبوں پر مشتمل ہو گی۔ مسودہ مستقبل کے بندوبست میں سب کے حقوق کے تحفظ، انتخابات کی ضمانت اور شفافیت پر زور دیتا ہے اور بدعنوانی اور منشیات کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف جنگ کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ افغانستان کے پڑوسیوں سے عدم مداخلت اور افغانستان سے اس ملک کو کسی دوسرے پر حملہ کرنے یا مداخلت کرنے کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت بھی مانگتا ہے۔مسودے میں کچھ امور جیسے عبوری حکومت کی لمبائی کا تعین اور یہ بات کہ کیا افغان انتظامیہ موجودہ صدر اور نائب صدور پر مشتمل ہوگا یا وہ جس میں وزیر اعظم بھی شامل ہوگا فریقوں پر چھوڑا گیا ہے۔یہ ایک جامع اور کثیر جہتی مسودہ ہے جسے کابل حکومت اور طالبان سمیت سیاسی میدان میں شریک تمام افغانوں کے نظریات اور ترجیحات کا مجموعہ سمجھا جاسکتا ہے۔بیرونی دباو سے آزاد ماحول میں افغان سرکردگی اور افغان ملکیتی امن مذاکرات کے نتیجے میں جلد سے جلد بین الافغان معاہدہ ہونا ملک میں دیرپا امن کےلئے ضروری ہے۔ توقع ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ افغان امن کے رکے ہوئے سلسلہ کو مہمیز لگانے کا بہترین موقع ثابت ہوگا۔