امریکہ کے افغان منصوبے کا تجزیہ۔۔۔

امریکہ کی طرف سے افغان حکومت اور طالبان کو پیش کیا جانے والا امن معاہدے کا مسودہ ایک جامع اور کثیر جہتی مسودہ ہے جس میں اکثر افعان گروہوں کے چند بنیادی نظریات، خدشات اور مطالبات کا ذکر کیا گیا ہے۔اس مجوزے منصوبے کے ذریعے سب کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً مسودہ اسلامی اقدار کے تحفظ کا وعدہ کرتا ہے اور اسلامی رہنمائی اور مشورے دینے کےلئے اسلامی فقہ کی ایک اعلی کونسل کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم اس سے طالبان بمشکل مطمئن ہوں گے کیونکہ مسودے کے مطابق اس کونسل کا کردار مشاورتی ہوگا۔ مزید برآں اسلام کو افغانستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن پہلے ہی صفحے پر مستقبل کے آئین و بندوبست میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کی بات سے خواتین گروہ کچھ مطمئن ہوں گے لیکن صرف باتیں کافی نہیں ہوتیں۔مسودے میں عبوری انصاف کی قومی پالیسی کی بات کی گئی ہے۔ لیکن افغانستان میں انصاف کا پلڑا کبھی بھاری نہیں رہا اور جسںکی لاٹھی اس کی بھینس ہی حقیقت رہی ہے۔بظاہر مسودے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو محفوظ اور باوقار رخصتی اور افغانیوں کو باوقار امن اور محفوظ مستقبل مل جائے۔ تو کیا یہ امن منصوبہ افغانستان میں امن لاسکے گا یا اس کے امکانات گھٹا دے گا؟اس بار اقوام متحدہ، جو مدت ہوئی افغان مصالحتی عمل سے باہر رہا ہے، کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے جس سے اس عمل کو عالمی جواز مل جائے گا۔سابق صدر حامد کرزئی سمیت کچھ لوگ اسے صحیح اور ضروری قدم جبکہ صد ر اشرف غنی سمیت بعض لوگ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ آٹھ صفحات پر مشتمل یہ مسودہ مذاکرات میں تعطل، منتخب حکومت کی کمزوری اور سیاسی بحران پر منتج ہوگا۔سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بقول دہائیوں کی جنگ کے بعد افغان گروہوں میں جلد سے جلد امن لانے کی تڑپ موجود ہے اور امریکہ کا یہ منصوبہ افغان امن کے رکے ہوئے سلسلہ کو مہمیز لگائے گامگر افغان صدر اشرف غنی کہتے رہے ہیں کہ وہ جب تک زندہ ہیں وہ طالبان کے ساتھ کسی عبوری حکومت کو قبول نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس منصوبے پر عمل نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بلنکن نے انہیں خط میں لکھا کہ وہ ان کے لہجے کی شدت کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ اگر امریکہ نکلتا ہے تو طالبان کئی علاقوں پر قبضہ کرلیں گے۔ اشرف غنی چاہتے ہیں امریکہ اس کے برعکس طالبان پر جنگ بندی کرنے کےلئے دباو¿ ڈالے۔ افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے کہا کہ افغانستان کبھی بھی تحکمانہ اور مسلط کردہ امن قبول نہیں کرے گا۔ امریکی اپنی فوج کے بارے میں فیصلے کرسکتے ہیں، افغانستان کے عوام کا نہیں۔افغان طالبان بھی کہتے ہیں عبوری حکومت کبھی بھی افغانستان میں امن لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے وہ مسودے کا مطالعہ کررہے ہیں اور اپنا باضابطہ موقف جلد جاری کریں گے۔مسودہ مشترکہ افغان عبوری حکومت کی بات کرتا ہے۔ روس کا بھی کہنا ہے کہ عبوری افغان انتظامیہ میں طالبان کو شامل کیا جانا چاہئے کہ اس شمولیت سے ‘افغانستان کی پرامن سیاسی زندگی میں طالبان کا مین سٹریم میں لانے کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے اس میں کون کون شامل ہوں گے اور آئندہ حکومت منتخب کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ کیا طالبان جمہوریت اور موجودہ جمہوری انتظام کو قبول کرکے خود ایک سیاسی گروہ کے طور پر انتخابات میں شریک ہوں گے؟ اگر وہ جمہوریت اور انتخابات کی راہ اختیار کریں گے تو اس صورت میں کیا وہ اپنے سخت گیر رہنماو¿ں اور حامیوں کو مطمئن کرسکیں گے؟ دیگر عسکری تنظیموںاور گلبدین حکمتیار وغیرہ کا کیا کردار ہو گا؟مسودہ طالبان کو میدان جنگ سے مذاکرات کی میز پر لانے اور اپنے مقاصد اور طریقہ کار بارے دنیا کے شکوک زائل کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن ان میں اعتدال پسند بھی ہیں اور انتہا پسند بھی۔ اس لیے ان کی طرف سے اکثر متضاد موقف سامنے آجاتے ہیں۔ ایک طرف وہ شرکت پسند نظام حکومت چاہتے ہیں مگر ان کے چند کمانڈرز خلافت کی بات بھی کرتے ہیں۔ طالبان اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں۔ بظاہر اس کا مطلب افغان ثقافتی وسماجی اقدار اور شرعی سزاو¿ں پر مبنی عدالتی نظام کا قیام ہوتا ہے اور اگر وہ ممکن نہ ہو تو پھر مناسب مرکزیت والا مستحکم نظامِ حکومت ہو جس میں اسمبلی کے ساتھ ایک طاقتور مرکزی امیر موجود ہو۔ کیا یہ افغان صدر کا عہدہ نہیں ہوسکتا؟ افغان طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے پچھلے سال نیویارک ٹائمز میں اپنے کالم میں کہا تھا۔”ہم شرکت پسند نظام جس میں ہر افغان حصہ لے سکے چاہتے ہیں۔ ہم تمام افغانوں کی مدد سے یقینی بنائیں گے کہ افغانستان استحکام کا مرکز ہو اور یہاں سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ ہم پرامن و مستحکم افغانستان کےلئے بیرونی دنیا سے تعاون بلکہ شراکت کےلئے بھی تیار ہیں۔ ہمارا افغانستان بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہوگا۔ ہم اسلامی قوانین کے مطابق تمام بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کریں گے اور اقلیتوں اور عورتوں کو حقوق دیں گے۔ دوسرے ممالک بھی ہماری آزادی اور سالمیت کا احترام کریں۔“اسی موضوع پر مزید تفصیل قارئین اگلے کالم میں ملاحظہ کر سکیںگے۔