یہ آج سے نہیں ۔کچھ سالوں سے ہے ۔دوائیوں کی دکان پر اور دوائیں مل جائیں گی ۔مگر سکون والی ادویہ کے بارے میں پوچھیں ۔ آپ کو جواب ملے گا یہ دوا شارٹ ہے ۔دوسری قسم کی اسی نوعیت کی گولی کا پوچھ لیں وہ بھی دستیاب نہیں ہوگی ۔اگر آپ مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو آپ کو نہیں ملیں گی کیونکہ اکثر مریض اسی ایک دوا کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔اگر اس سے زیادہ قیمت والی ادویہ مل جائیں تو خرید کر استعمال کے بعد ان کو آرام نہیں آئےگاکتنے افسوس کامقام ہے کہ زندگی دینے والی دوا¶ں کو جان بوجھ کر مارکیٹ سے اٹھا دیا جاتا ہے۔مریض راضی ہو جاتا ہے کہ چلو مہنگی ہے تو کیاہوا ۔جان سے اچھا کچھ نہیں۔پھر کچھ سیرپ ایسے ہیں جو خاص نشے کےلئے نہیں بنے ۔ اگر ان کی ایک خورا ک پی لیں تو کوئی نشہ نہیں چڑھتا۔ ہاں مگر بعض لوگوں کو اندرکی بات معلوم ہوتی ہے۔ وہ نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔وہی شربت کی شیشی پوری کی پوری پی لیں گے ۔جس سے وہ نشے میں جھوم اٹھتے ہیں۔ چھری تو پیار کاٹنے کے لئے بنی ہے ۔ خود کی انگلیاں تو نہیں کاٹی جاتیں ۔مگر کچھ لوگ اگر اپنے ہاتھوں کا لہوجان بوجھ کر بہا دیں تو کوئی کیا کرے۔سروے ہوا ہے ۔ معلومات میں آیا ہے کہ میڈیکل سٹور وں پر جو دوا زیادہ فروخت ہو رہی ہے وہ یہی سکون کی گولیاں ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہے۔وہ کون سا سکون ہے جو غارت ہو چکا ہے ۔کیابات ہے کاہے کی ٹینشن ہے کہ ختم ہی نہیںہورہی ۔لوگ دھڑا دھڑ یہ مسکن گولیاں خرید تے ہیں ۔ہرطرح اور ہر قسم ہر نام ہر فارمولے کی گولیاں ہوتی ہیں مگر خوب بکتی ہیں۔ذرا اس بات کی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میںآج کاشہری بہت پریشان ہے ۔نشے کی اپنی ایک دنیا ہے ۔ہر طرح کا نشہ موجود ہے ۔ہر طرح سے اور مختلف انداز سے ایک ہی نشہ کیا جاسکتاہے ۔جس شئے میں نشہ نہیں ہوتا بعض حضرات اس کوپے در پے استعمال میں لا کر نشہ بنا لیتے ہیں۔ پھرکمال یہ ہے کہ واقعی میں وہ چیز اس آدمی کےلئے نشہ بن جاتی ہے۔مثال کے طور پر سپاری کے روپے دو کے پیکٹ کیا ہیں ۔ وہ بھی مسلسل استعمال سے بندے کی عادت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ پھر وہ نشہ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھرانسان سمجھتا ہے کہ ا س کے بغیر تو زندگی کا تصورنہیںہے ۔بلکہ یہ تو اس طرح ضروری ہے جیسے سانس لینا ضروری ہے ۔فارسی میں کہتے ہیں ” عادتِ بد نہ رود تالبِ گور“۔ یعنی بری عادت قبر تک ساتھ جاتی ہے۔پہلے بندہ اپنی عادت بناتاہے ۔یہ انگریزوں نے کہا ہے ۔پھر عادتیں خود انسان کو بنانے لگتی ہیں۔اب سگریٹ کو ئی نشہ نہیں ۔مگر اس کو مسلسل استعمال میں لانا نشہ بن جاتاہے۔ یہ دراصل ایک عادت ہے ۔مگر کسی اچھی چیز کابھی زیادہ سے زیادہ استعمال آدمی کےلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔بعض غیر مستندطبیب اپنے نسخے میں آج کل مریض کولازمی کوئی نہ کوئی سکون کی گولی ضرور لکھ کر دیتے ہیں۔ تاکہ مریض باقی دوا کھائے اور چارپائی پر سویا رہے اور جلد صحت یاب ہو ۔کیونکہ نیندکی حالت میں دوا رگوں میں تیزی سے دوڑتی ہے شروع میں ایک گولی بہت مزا دیتی ہے۔ مگرآہستہ آہستہ جسم عادی ہوجائے تو اس پر ایک گولی اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔پھر وہ سکون کی دوگولیاں کھاتا ہے تاکہ اسے جلد آرام ملے ۔ یہیںسے آگے نشے کی دنیا ہے۔جو بہت دور تک جاتی ہے ۔” جو گیا وہ پھر نہ آیامیری بات مان جا¶“۔