امریکہ کی جانب سے طالبان اور افغان حکومت کو زیرِ غور لانے کےلئے دئیے گئے افغان مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے آئندہ آئین میں گذشتہ 20 سالوں میں حاصل کردہ حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اپنے بعد بننے والے سیاسی ڈھانچے اور موجودہ افغان حکومت کو غیرقانونی اور کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔ وہ امارت اسلامی افغانستان کی بحالی کے خواہش مند ہیں جس کے سربراہ ان کے امیر تھے اور ملک بھر میں جید علماوں پر مشتمل شوریٰ انہیں مشورے دیتی تھی۔ لیکن اب افغانستان ایک اسلامی جمہوریہ بن چکا ہے جس کی سربراہی عوام کے ایک منتخب صدر کر رہے ہیں۔ مشورے دینے کےلئے یہاں ایک منتخب پارلیمان ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے افغان آئین اور بین الاقوامی قوانین کے پیرو ہیں۔ طالبان کی ترجیحات اور جدید مظاہر میں بظاہر بعد المشرقین ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کن نکات پر مفاہمت کرسکتے ہیں اور کن پر نہیں۔ مگر امکان ہے کہ وہ افغانستان کے موجودہ جمہوری اداروں، آئین اور اپنے بعد کے سیاسی و آئینی پیش رفت وبندوبست کو چند اصلاحات و ترامیم کے ساتھ مان لیں گے جس کی یقین دہانی ان کے نائب امیر نیویارک ٹائمز میں پچھلے سال چھپنے والے اپنے کالم میں کرواچکے ہیں۔ اسی کالم میں کمانڈر حقانی نے لکھا تھا ہم تکثیری نظام، جس میں ہر افغان حصہ لے سکے، کےلئے صدق دل سے کوشاں ہیں اور رہیں گے۔ جدید تعلیم، جدید ٹیکنالوجی اور صحافت کے استعمال اور ڈونرز کواپنے کنٹرول والے علاقوں میں کام کی اجازت دے کر بھی انہوں نے اچھے اشارے دئیے ہیں۔مسودے میں افغانستان میں انتخابات کے ذریعے قیادت کے انتخاب کی بات بھی کی گئی ہے۔ اگر طالبان اپنے موجودہ یا کسی نئے نام سے سیاسی پارٹی بناکر انتخابات اور نظام میں شامل ہونے کےلئے تیار ہیں تو پھر افغان قومی پارلیمنٹ میں توسیع کی جاسکتی ہے تاکہ طالبان ارکان اس میں شامل ہوسکیں یا پھر نئے انتخابات تک موجودہ پارلیمنٹ کو معطل یا برخاست کیا جاسکتا ہے۔ مگر جمہوریت اور انتخابات کو آزادانہ بنانے کےلئے طالبان سمیت سب کو افغانستان میں اختلاف رائے برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔مسودہ کہتا ہے تشدد میں 90 دن کی کمی اور پھر مستقل جنگ بندی کی جائے گی۔ طالبان اب تک مذاکرات اور حملے ساتھ ساتھ جارے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے معاہدہ ہونا چاہئے اور پھر جنگ بندی۔ افغان حکومت پہلے جنگ بندی کا تقاضا کررہی ہے۔ تو کیا طالبان معاہدے سے پہلے تشدد میں کمی کرلیں گے یا جنگ بندی اور بہار کا حملہ روکنے کےلئے تیار ہوجائیں گے؟ یہ بھی ابھی واضح نہیں۔ مسودے کے مطابق افغانستان میں ایک قومی حکومت ہوگی اور کوئی متوازی حکومتیں اور متوازی فوجیں نہیں ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان، سابق مجاہدین کمانڈروں اور سرداروں کے وفادار متعدد فوجی جتھے ختم کرنے ہوں گے۔ اس کےلئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ کیا انہیں عام معافی دی جائے گی یا انہیں افغان فوج میں ضم کیا جائے گا یا مالی امداد اور تربیت کے ذریعے ان کی کایا پلٹ اور آبادکاری کی جائے گی؟ اس کےلئے بین الاقوامی برادری کا مسلسل تعاون بھی درکار ہوگا۔ پھر یہ اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ آئندہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کا کردار تعمیری ہوگا یا تخریبی؟۔ امریکہ کی جانب سے ایک طرف پاکستان کی خدمات کا اعتراف اور دوسری طرف اسے کٹہرے میں کھڑا کرنا قرین انصاف نہیں۔ اگرچہ افغان اور امریکی حکومتیں افغانستان میں بھارت کا رول بڑھانا چاہتی ہیں مگراٹھارہ مارچ کو ماسکو کانفرنس میں بھارت کو شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی اگرچہ پاکستان، چین اور افغان حکومت وغیرہ اس میں شریک تھے۔افغانستان میں بدامنی سے پاکستان بدامنی کا شکار ہوتا اور وہاں امن سے یہاں امن آتا ہے چنانچہ یہ وہاں امن لانے کےلئے سب سے بڑھ کر کوشاں ہے مگر جب تک دیگر ممالک اس کے ساتھ مکمل تعاون نہ کریں یہ اس کے بس سے باہر ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان پر اب پاکستان کا زیادہ اثر و رسوخ باقی نہیں رہا ، اگر چہ اس نے چالیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی۔ اس کی معیشت کو سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہاں انتہاپسندی، بدامنی اور دہشت گردی آئی جن سے پاکستاں اب تک جنگ کررہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کی طرف سے دخل اندازی تو صرف ایک الزام ہے لیکن پچھلے سال جولائی میں جاری دہشت گردی پر اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہوتی ہے ۔مسودے کے مطابق افغانستان میں سچائی اور مفاہمت کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ ملک کے جنگجو سرداروں اور متحارب گروہوں کو خصوصاً اور تمام افغانیوں کو عموماً مفاہمت کےلئے پرانی دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کو صدق دل سے معاف کرنا ہوگا۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہوگا؟