سمتوں کا تعین بھی عجیب چیز ہے اگر دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے کی چھ سمتیں معلوم نہ ہوں تو بھلا چنگا آدمی پاگل ہو جائے‘کھلے سمندر میں جہاں دور دور تک کسی نشانی کا پتا نہ ہو ۔ جہاں بحری جہاز کے عرشے پر کھڑے ہو ں سر پر بادل ہوں سورج کی شکل دکھائی نہ دے اس وقت کیاپتا مشرق کس طرف ہے اور مغرب کس جانب ہے شمال اور جنوب کے بارے میں بھلا کون بتلائے بلکہ ہوائی جہاز لیں ۔چھوٹے جہاز چلانے والے اس وقت مشکل میں پڑ جائیں گے ۔ جب گھنے بادل ہو ں اور نیچے زمین پر بلیک آ¶ٹ اور گور اندھیراہو۔سر پر ستارے نہ ہوں۔ایک لمحے پائلٹ کو اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس وقت آسمان میرے اوپر ہے یا نیچے ‘اگر یہ کیفیت زیادہ دیر رہے تو جہاز کے گرنے کاخطرہ ہو تاہے مشرق مغرب تو ایک اندازہ کانا م ہے ۔شمال جنوب بھی آنکھوں کا دھوکا ہے ۔۔اسی بات کوآگے بڑھاتے ہیں ہر علاقے کا اپنا مشرق بھی ہے جب تک کوئی آدمی اپنی پوزیشن نہ بدلے یہ سمتیں بھی نہیں بدلتیں۔ اگر راہ چلتے بندے کا مشرق اس کے چہرے کے سامنے ہوتو اس کے سامنے آنے والے کا مشرق اس کی پیٹھ پیچھے ہو گا چارسدہ میں کھڑے ہو کرآپ کو چارسدہ روڈ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا‘ہاں جب پشاور سے روانہ ہوں گے تو چارسدہ روڈ پر جارہے ہونگے یہی سڑک ہوگی جب چارسدہ سے روانہ ہوں تو پشاور روڈ بن جائے گی۔ چیز وہی ایک ہے مگر نام بدل جاتے ہیں۔ نام بھی اسلئے بدلتے ہیں کہ آدمی اپنی جگہ بدلتا ہے آئن سٹائن کا نظریہ اضافت اسی سے لنک ہے جس آگ کو ہم سردیوں میں مہربان کہتے ہیں اس پر ہاتھ تاپتے ہیں اور اپنی پوزیشن بدل کر اس کے قریب تر چلے جاتے ہیں‘وہی آگ سخت گرمیوں میں جلاد بن جاتی ہے‘ ہوتی وہی آگ ہے ۔مگر چونکہ ہم سردیوں میں قریب گئے تو مہربان تھی اب گرمیوں میں اس کے قریب نہیں جا سکتے ۔وہ ہمارے لئے ظالم بن جائے گی۔ لہٰذا ہم نے پوزیشن لے کر پرے ہٹناہوگا سمتو ںکا پتاہونا بہت بڑا علم ہے ۔نقشہ جات انھیں سمتوںکے تعین کا نام ہے ۔ پاکستان میں رہ کر معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے چار وں طرف کون کون سے علاقے ہیںپشاور کے چار اطراف کون سی سرزمینیں ہیں۔ ملک میں رہ کر معلوم ہو کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کس طرف ہیں او رکیا نام ہیں۔ نقشوں کا علم مصدقہ علم ہوتا ہے اس علم کا حصول قابلیت اور لیاقت حاصل کرنے کےلئے بہت ضروری ہے جب ذہن میں چیزیں گڈ مڈ ہو جائیں تو بندے کو راستوں کے تعین اور ان کی سمت کا پتا بھی نہیں رہتا ۔ جسے ہم مخمصہ کہتے ہیں اور انگریز ی میں کنفیوژن کہا جاتاہے سمتوں کے مکس ہوجانے کا نام ہے ۔جب عام زندگی میں ایک فرد کنفیوز ہو جاتا ہے تومطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کوراستہ نہیں مل رہا تاکہ اپنے مسئلے کا حل نکالے۔ اسی لئے ہم دعامیں یہ الفاظ ادا کرتے ہیں کہ میرا راستہ سیدھا کردے ۔اکثر لوگ اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھ کرکسی بازار وغیرہ کا پتا دیں تو اپنے پیچھے کی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہیں حالانکہ وہ مقام ان کی آنکھوں کی سمت والی دیوار کی پشت پر ہوتا ہے ۔جب ہم کسی دوسرے گنجان آباد او ربڑے شہرمیں جاتے ہیں تو ہمارا دماغ ما¶ف ہو جاتاہے ۔اسی لئے انگریز سیاح کسی ملک میں جائیں تو کسی سے پتا نہیں پوچھتے ۔ان کے ہاتھوںمیں اس شہر کا نقشہ ہوتا ہے‘جو ان کو ٹورزم کے محکمے نے دیا ہوتا ہے پشاور میں بیس سال ہوئے باہر کے انگریز مر د وخواتین نے آنا بند کردیا ہے۔وہ جب قصہ خوانی بازار سے گذرتے تو کسی سے پشاور عجائب گھرکا راستہ نہیں پوچھتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پشاور کانقشہ ہوتا ۔ اس پر چار سمتوں کے نشانات سب سے پہلے لگے ہوتے ۔ آج بھی آپ کوئی نقشہ دیکھیں خواہ دنیا کا ہو یاکسی شہر کا ۔ اس پر اوپر ایک طرف کراس کے نشان کی طرح مشرق مغرب اور شمال جنوب کی لکیریں پہلے کھنچی ہونگی۔ کیونکہ یہ سب سے بڑی جہالت ہے کہ نقشہ آپکے ہاتھ میں ہو اور اس پر سمتوں کاتعین نہ ہو تو پھر نقشہ کا ہاتھ میں تھام لینا بالکل بیکار ہے ۔اگر آپ دوسرے شہر میں کسی سے راستہ نہیں پوچھتے تو آپ اپنے دماغ کو رکشہ ڈرائیور کے حوالے کر دیتے ہیں ۔کیونکہ اس کوسمتوں کے تعین کاعلم ہوتا ہے رہنما یا لیڈراسی کوکہتے ہیںجس کواچھے برے راستے کا علم ہوتا ہے۔ کس طرف جاناہے اور کس طرف نہیں جانا ۔