گم شدہ شہر کی تلاش

یہ شہر اپنے آپ میں گم ہو چکاہے۔ درو دیوار موجود ہیں۔ مگر وہ شہری نہیں۔ اب کے تو شہریوں نے بھی ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لئے ہیں۔”زمانے قدر کر ان کی کہ اب شہرِ پشاور میں۔ بزرگوں کی نشانی بس یہی دوچا رچہر ے ہیں“(نذیر تبسم)۔اس شہر کی تہذیب و ثقافت کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔گری پڑی ہوئی۔دور افتادہ۔ شہری بہت آگے نکل گئے ہیں۔بہت آگے۔ آگے نکل جانے والی دوڑ کاروبار کی ہے۔اس کاروبار کی دوڑ نے کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔کوئی کہاں جا بسا اور کوئی کہاں۔ اس مالا کے موتی بکھرگئے۔تلاشِ روزگار نے اپنوں کے چہروں پر سے اپنائیت چوس لی ہے۔پھرپیاروں کے چہروں کی روشنائی لوٹ لی ہے۔اس کے بعد ان کا اک دوجے سے پیار نوچ لیا ہے۔”وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں۔ وہ جن کے دیکھنے کوآنکھیں ترستیاں ہیں“۔وہی لوگ تھے جو اب نہیں رہے۔ شہر کے اندر اور دنیا کے اندر۔کچھ اپنا کاروبار لے کر شہر سے باہر نکل گئے اور کچھ تہہ ِ زمین جا سوئے۔”موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں۔ ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں“۔ اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔ یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں“۔(فراق گورکھپوری)۔ جانے وہ رہن سہن وہ صبح و شام اب لوٹ کر آئیں گے بھی کہ نہیں۔ ”اگر لوٹ آئیں تو پوچھنا انھی دیکھنا نہیں غور سے۔ جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے“۔مگر قیاس یہی ہے کہ ترقی اور زندگی کا راستہ وہ ہے جہاں سے گزرتے تو ہیں مگر معاشرت اور انسان اسی راستے پر سے ہو کرواپس نہیں لوٹتے۔ جیسے بہتا ہوا دریا اپنے بہاؤ میں مڑ کر واپس نہیں آتا۔ جیسے پانی پر دیا نہیں جل سکتا جیسے سورج کی کرن جم نہیں سکتی۔ایسے ہی کسی شہر کی ترقی اور کامرانی کے راستے واپس اسی راستے پرلوٹ نہیں آتے۔سب کچھ وقت کے دریا میں خس و خاشاک کی طرح بہتا ہوا آگے کو رواں دواں ہے۔جو جتنا شہ زور ہے وہ اس دریا کی موجوں کے تلاطم کے آگے بے زور ہے۔ہمارا اپنا کوئی زور نہیں۔ وقت نے کسی کو اٹھا کر کہاں رکھ دیا اور کسی کوکہاں لے جاکر کھڑا کر دیا۔”متفق اس پہ ہیں ساری دانائیاں واپسی کا سفر اتنا آساں نہیں“(سجاد بابر)۔ مجھے اس گمشدہ شہر کی تلاش کرنا ہے۔مگر کیا تلاش کیا گمشدہ شہر۔ وہ شہر تو اب دلوں ہی میں آباد و شاد ہے۔باہر تو کہیں موجود نہیں ہے۔یہ ٹیکسلاکا شہر تو نہیں او رنہ ہی موہنجودڑو ہے کہ جس پر سے برش کے ساتھ ریت اورمٹی ہٹاتے جاؤ او رایک شہر کو ماضی سے نکالتے جاؤ۔ یہ تو جیتا جاگتا شہر ہے جو وقت کی تبدیلی کے سمندر میں یوں گم ہوا کہ اس کو اس کی رعنائی اور جل تھل میں سے بھی تلاش کرنا ناممکن ہو چلا ہے۔”جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا۔ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے“ (غالب)۔وہ شہر جس کی سیدھی سادی راہیں تھیں جو گھرکی طرف جاتی تھیں۔ مگر اب تو شہر وہی ہے مگر اس کے راستے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پھر مڑ کر بھی تو نہیں آتے۔ ”گھر کو جانے وا لے رستے اچھے لگتے ہیں۔ جیسے دل کو درد پرانے اچھے لگتے ہیں۔ پھول نگر میں رہنے والوں آکر دیکھو تو۔ اپنے گھر کے کانٹے کتنے اچھے لگتے ہیں“۔(عطا ء الحق قاسمی)۔وہ پھول اب کملا گئے۔سرِ شاخ جھنجھلا گئے۔اب تو ان کی خوشبو کو بھی دل و جاں ترستے ہیں۔وہ یکہ توت دروازے کے اندر راہ چلتوں کو پھول بانٹتے والے تک نہ رہے۔وہ چبھتے کانٹوں کو پھول بنا دینے والے دیوارکو زیرِ ران گھوڑا بنا کر اس پرسوار ہو کر ایڑھ لگا کر دوڑا دینے والے جانے کہاں چلے گئے۔میں اس گمشدہ شہر کی تلاش میں ہوں مگر جانتا ہوں کہ یہ کارِ لا حاصل ہوگا۔ یہ صرف خواہش ہوسکتی ہے کہ وہ شہر واپس اپنی پرانی آن بان پر لوٹ آئے۔مگر یہ خواہش اب حسرت بن چکی ہے۔حسرت وہی ہوتی ہے جو پوری نہ ہو سکتی ہو۔ خواہش کے پورا ہونے کے امکانات ہو تے ہیں۔ کبھی تو خواہش کسی بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوسکتی مگر ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس شہر کی ضرورت ہے۔جس کاڈھانچہ تو موجود ہے مگر اس کے اندر رہنے والی روحیں جو مختصر مدت کے لئے شہر کی رہائش کنندہ بن کر آئیں۔ مگر چلی گئیں اور اب نہیں لوٹیں گی۔ شہر کی دیوار وں میں دروازے تو موجودہیں۔مگر دروازے جن سروں پر جھک کر صدقے نثار ہوتے تھے وہ سر موجود نہیں ہیں۔سروں کے اپنے ستارے تک نہیں رہے۔اب تو شہر کو روندا جا رہاہے۔شہر کی ثقافت اس کے رہن سہن اور اس کی کہانی کے ساتھ کسی کو کچھ سروکار نہیں۔یہ شہر روز روتا ہے مگر رات کو جب اس کے شہری سو جائیں۔ اس کی سسکیوں کی ہچکیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ مگر ان کو جو اس سے محبت کرنے والے ہیں۔شہر جاگتا ہے ان کی یاد میں جو اس کی رعنائی تھے اس کامان تھے اس کا فخر و افتخار ہوا کرتے تھے۔یہ شہر رات کو تاروں سے باتیں کرتا ہے۔