سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کا مشاورتی اجلاس طلب کرنے کےلئے خط لکھ کر باضابطہ دعوت نامہ جاری کیاہے۔پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کو میٹنگ میں آنے کی سہولت دینے کےلئے زیرحراست اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کردئیے ہیں۔اگر چہ سپیکر نے اس اجلاس کے آئینی اصلاحات کےلئے مشاورتی اجلاس کانام دیا ہے تاہم عملی طورپر ہم اس کو وسیع ترقومی مکالمہ کی طرف پیش رفت بھی کہہ سکتے ہیں۔آئینی اصلاحات کے پیکیج میںاہم قومی امور کااحاطہ ہوگا اس میں نیب قوانین اور انتخابی قوانین پربھی مشاورت ہوگی۔گذشتہ ڈھائی سالوں سے ملکی سیاست میں یہ دوسری بڑی مشاورت ہے پہلی مشاورت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کاقانون پاس کرنے کےلئے ہوئی تھی اور ظاہر ہے کامیاب بھی ہوگئی تھی ‘زیر نظر مشاورتی اجلاس کے ایجنڈے پر سردست دوقوانین کا ذکر آیا ہے دونوں قوانین پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو جائز تحفظات ہیں مگر یہ تحفظات لچک دار ہیں۔کوئی سیاسی جماعت حزب اختلاف میں ہوتو قوانین میں تبدیلی کی بات کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد تبدیلی کی حمایت نہیں کرتی بعض حلقے یہ تاثر دیتے آئے ہیں کہ نیب کے دونوں قوانین کا مجموعہ احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے سے زیادہ مخالفین کو رگڑا دینے کے کام آتا رہا ہے اس لئے جو بھی حزب اختلاف میں جاتا ہے وہ پھنس جاتا ہے پھنسنے کے بعد ان قوانین میں تبدیلی کا بیانیہ الاپتا ہے مگر اگلے انتخابات میں اگر حکومت مل جائے تو مخالفین کے سروں پرننگی تلوار لٹکانے کےلئے ان قوانین کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اس طرح بلی چوہے کا کھیل جاری رہتا ہے۔انتخابی اصلاحات کا معاملہ بھی کم وبیش ایسا ہی ہے ہر حکومت قوانین کی مدد سے مخالفین کودبانے پر زور دیتی ہے اور ہروقت کی حزب اختلاف اپنے آپ کو قوانین کے یکطرفہ شکنجے سے چھڑانا چاہتی ہے۔دنیا کے120ملکوں میں جمہوری طریقے سے انتخابات ہوتے ہیں ان میں برطانیہ جیسی قدیم جمہوریت بھی ہے افغانستان کی طرح جنگ زدہ،خلفشار وانتشار کا شکار ملک بھی ہے کسی بھی ملک میں انتخابات کےلئے نگران حکومت نہیں بنتی‘ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ2018کے الیکشن میں نگران حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہم انتظامی آفیسروں کو نہیں مانتے،پولیس کو نہیں مانتے پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات کی جائے۔مطالبہ مان لیا گیا فوج کی براہ راست نگرانی میں انتخابات ہوئے پھر بھی ناکام ہونے والوں نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی چنانچہ ضمنی انتخابات میں فوج نے ڈیوٹی نہیں دی ڈسکہ سیالکوٹ میں10اپریل کو این اے75کا ضمنی الیکشن ہورہا ہے حزب اختلاف نے پھر درخواست کی ہے کہ فوج بلائی جائے لوگ کہتے ہیں سیاست میں برداشت کا فقدان ہے حقیقت میں اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے ‘ یہ شکر کامقام ہے کہ سپیکر اسد قیصر نے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کا مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے اس اجلاس کے بعد اگر چیئرمین سینیٹ بھی اس طرح کا اجلاس بلائے،صدر مملکت بھی کسی بہانے سے سیاستدانوں کو مل بیٹھنے کا موقع دیدیے تو برف پگھل جائیگی۔