انیس مارچ کو ماسکو میں منعقد ایک روزہ افغان کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی جب قطر میں ہونے والے بین الافغان مذکرات تعطل کا شکار ہیں اور امریکی افواج کی افغانستان سے انخلاءکی تاریخ یکم مئی قریب آرہی ہے۔اس کانفرنس میں روس، امریکا، چین اور پاکستان کے علاوہ افغان طالبان، افغان حکومتی اور سیاسی نمائندوں جبکہ ترکی اور قطر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ امریکہ نے پہلی بار اعلیٰ سطح پر کسی ماسکو کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کے اختتام پر افغان فریقین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں اور افغانستان کو ایک آزاد، خود مختار، پ±رامن، متحد، جمہوری اور خود مختار ملک بنانے کے اقدامات کی حمایت کریں، ملک کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک کریں اور افغانستان میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور دیگر کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔تمام شرکا نے فریقین سے تشدد میں کمی، فوری جنگ بندی، افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے اور جلد معاہدہ کرنے، عبوری حکومت تشکیل دینے اور تمام گروہوں سے افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے اور طالبان سے موسم بہار کا حملہ نہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی طرف بڑھیں گے۔ امید ہے تب تک کوئی معاہدہ ہوچکا ہوگا اور طالبان اس کی وجہ سے یا دیگر اسباب سے اپنے بہار حملے کو ملتوی کرلیں گے۔کانفرنس کے شرکاء کے مشترکہ بیان کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ”ہم امارت اسلامی افغانستان کی بحالی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ افغان حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔“ افغان حکومت نے اس نکتے اور مشترکہ بیان کے دیگر نکات کو خوش آمدید کہا ہے۔ واضح رہے طالبان امارت اسلامی سے مراد اپنی حکومت کی بحالی لیتے ہیں۔ کانفرنس کا مقصد دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت، افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان تصفیے کے لیے راہیں تلاش کرنا ہے۔لیکن اصل تفصیلی مذاکرات اگلے ماہ ترکی میں ہوں گے۔روس 2017 سے اب تک افغانستان پر کئی امن کانفرنسیں منعقد کرچکا ہے۔ نومبر 2018 میں طالبان کو پہلی بار روس ہی نے افغان حکومتی نمائندوں کے ساتھ بٹھایا تھا۔ اگرچہ امریکہ اور افغان حکومت ماسکو کانفرنسوں کو روس کی جانب سے اپنی بڑاءاور اہمیت کے اظہار کی کوشش سمجھتے اور اس پر شک کرتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے روس کی انہی کوششوں کے بعد قطر میں امریکہ طالبان معاہدہ اور بین الافغان مذاکرات ممکن ہوسکے۔ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان پر اکیلے فیصلے کررہی تھی تو اب بائیڈن انتظامیہ اقوام متحدہ، روس اور سمیت تمام متعلقہ طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اور اس طرح کامیابی کی امید اب زیادہ ہوگئی ہے۔اگرچہ امریکہ اور روس کے درمیان امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت اور اب امریکی اور روسی صدور کے مابین الفاظ کی جنگ کے بعد تناو¿ بڑھ چکا ہے اور ماضی میں امریکہ روس میں مذاکرات کے انعقاد پر اعتراض بھی کرتا رہا ہے مگر یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ اور روس افغانستان کے معاملے پر تعاون کررہے ہیں اور پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہوگئے ہیں امریکہ اور روس دونوں افغان طالبان اور افغان حکومت کی مشترکہ عبوری حکومت اور امن معاہدے کےلئے کوشاں ہیں تاہم افغان صدر اشرف غنی اس کے مخالف ہیں۔ لیکن شاید جلد انہیں کسی معاہدے کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت کےلئے جگہ خالی کرنا ہوگی۔امریکہ، طالبان اور افغان گروہ ایک دوسرے کو ختم نہیں کرسکتے اس لیے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر مل بیٹھ کر افغان مستقبل کے فیصلے کریں۔کانفرنس کے آغاز پر روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ ماسکو افغانستان میں قیام امن کےلئے آسانیاں پیدا کرنے کےلئے تیار ہے لیکن افغان رہنماﺅں کو مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔ افغانستان میں مذاکرات اور سمجھوتوں سے ہی امن آسکتا ہے اور کسی بھی معاہدے تمام فریقین کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا“روس افغانستان کا پڑوسی اور خطے کا اہم ملک ہے جو افغانستان میں امن چاہتا ہے افغانستان میں کئی مسلح گروہ جو کسی نہ کسی کےلئے خطرہ ہیں۔روس اور امریکہ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ افغانستان کو جنگ کے ذریعے فتح کرنا تو آسان ہے مگر پھر اس قبضے کو برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ روس اور امریکہ دونوں یہ سمجھتے تھے کہ وہ افغانستان میں کام مکمل کرکے جلد واپس چلے جائیں گے مگر دونوں اس دلدل میں پھنس گئے۔روس کی مداخلت سے پندرہ لاکھ ہلاکتیں ہوئیں جبکہ امریکہ ایک لاکھ ہلاکتوں کا موجب ہوا ہے۔ تاہم روس کے اخراجات بیس ارب ڈالر رہے جبکہ امریکہ کے اب تک 1000 ارب ڈالر ہیں۔