مودی آمریت کی راہ پر۔۔۔

بھارت، جو اپنے سیکولرازم، تکثیریت اور شمولیتی جمہوریت پر فخرکرتا تھا، اب وزیراعظم نریندرا مودی کی نرگسیت اور پالیسیوں کی وجہ سے نفرت، مذہبی انتہا پسندی اور نسل پرستی کا مرکز بن گیا ہے اور ساتھ دنیا بھر کی جمہوریتوں کےلئے بے احتیاطی اور غلط ترجیحات کے برے نتائج کا نمونہ بھی۔مودی کی نرگسیت کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ گجرات کے شہر احمد آباد میں دنیا کے سب سے بڑے اور وسیع کرکٹ اسٹیڈیم، جو 100 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوا اور سردار پٹیل کے نام پر تھا، کو مودی نے 24 فروری کو اپنے نام سے موسوم کردیا۔ بی جے پی کے خواتین سوشل ونگ کی انچارج پریتی گاندھی نے اس پر لکھا ”سب سے بڑا کرکٹ سٹیڈیم سب سے بڑی شخصیت کے نام سے موسوم ہوگیا“ جبکہ کانگریس نے اسے مودی کی نرگسیت کی انتہا قرار دے دیا۔اس واقعے کے چار دن بعد مودی کی خوشنودی کی خاطر ملک کی خلائی ایجنسی نے مودی کی تصویر والا مصنوعی سیارہ خلاءمیں بھیج دیا۔ماضی میں اگر بھارت سیکولرازم پر عمل پیرا تھا تو اس تحریک کے سرغنہ گوتھم، رام، کرشنا، نانک، چشتی، کبیر، آزاد، گاندھی، نہرو اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ تھے تو اب ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ نئے انتہاپسند بھارت کے ہیرو گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے، اس کے سرپرست وی ڈی ساورکر، نسلی تفاخر کے علمبردار ایم ایس گولوالکر، انتہاپسند بال ٹھاکرے اور گجرات کے مسلمانوں کے مبینہ قاتل مودی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے خود کو”نئے ہندوستان“ کے باپو کی حیثیت سے پروجیکٹ کرنا شروع کردیا۔ بے جی پی پہلے ایک جمہوری تنظیم تھی جس میں مودی، جس کی والدہ برتن دھوتی اور والد چائے لگاتے, وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ گئے لیکن اب یہ مودی کے شخصی وفاداروں کا کلب ہے اور جو بھی مودی یا اس کے نظریات کی مخالفت کرے اسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ مودی کا بھارت اب ایک پارٹی ریاست بنتا جارہا ہے جہاں ہندو بنیادپرستی اور تنگ نظری کے خلاف بولنے کی گنجائش نہیں اور کئی آزاد منش افراد مثلاً ایم ایم کلبرگی، نریندرا ڈابھولکر، گوویند پنساری اور گوری راکیش کو قتل کردیا گیا ہے۔2017 میں مودی نے سرکاری کیلنڈر میں گھومنے والی چرخی کے ساتھ گاندھی کی تصاویر نکال کر اپنی تصاویر شائع کردیںاور پھر اترپردیش میں ‘،160000 سرکاری سکولوں کے طلباءوطالبات کو مودی کی سالگرہ منانے چھٹی کے روز سکول بلایا گیا۔مودی کی خوشی کےلئے ان کے بچپن پر ”چلو جی لیتے ہیں“ جیسی کئی ستاویزی فلمیں بھی تیار کی گئی ہیں جن میں مودی کو ایک روشن خیال بچہ، سدھارتھا کا جدید اوتار، دوسروں کےلئے ہمدرد، محنتی اور پرعزم دکھایا گیا ہے۔ وزراء اور پارٹی رہنما ان فلموں اور مودی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔حکمران جماعت کے سوشل میڈیا تنخواہ دار ملازم اور رضاکار مودی کے مخالفین کی درگت بنانے اور ان کی شخصیت کی دھاک بٹھانے کےلئے مختلف تصاویر اور وڈیوز میں ردو بدل کرکے جعلی چیزیں پھیلاتے ہیں جیسے ایک میں سابق امریکی صدر اوبامہ اور ان کے مشیر وہائٹ ہاوس میں بیٹھے مودی کی تقریر سن رہے اور تالیاں بجارہے ہیں اور دوسرے میں ان کے ڈیسک پر مودی کی تصویر کے نیچے لکھا ہے، ”ہمیں مبارک ہو۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کو یونیسکو نے دنیا کا بہترین وزیر اعظم قرار دیا ہے“اسی ممتاز نظر آنے کی خبط کی وجہ سے مودی نے صدر اوبامہ سے ملتے ہوئے کروڑوں روپے میں بناہوا سوٹ بھی پہنا تھا جس پر سونے سے مودی کا نام لکھا گیا تھا۔اس نرگسیت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ مودی پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہیں، اپنی کابینہ سے مشاورت نہیں کرتے اور پھر جلدی میں قانون سازی اور فیصلے لیتے ہیں جس کا نقصان قوم و ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری بھی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ مودی اپنی عادت سے مجبور عجلت میں یا بلڈوز کرکے قوانین پاس کروانا چاہتے ہیں“عجلت میں تھوڑی یا بغیر مشاورت کیے گئے فیصلوں میں 2016 میں بڑی مالیت کے نوٹوں کی گردش ختم کرنے اور کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے شامل ہیں۔ تازہ ترین اور بڑی مثال کسانوں اور زرعی اصلاحات بارے نافذ شدہ قوانین ہیں جن کے خلاف بھارت میں ایک سیاسی طوفان برپا ہے۔اور اس مودی نوازی کا تازہ ترین مظہر یہ ہے کہ کورونا وائرس ویکسین سرٹیفیکیٹ پر وزیر اعظم کی تصویر لگادی گئی ہے۔امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک معروف ادارے ’فریڈم ہاو¿س‘ نے تین مارچ کو کہا ہے کہ مودی اور ان کی پارٹی المناک حد تک آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس نے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے”جزوی طور پر آزد“ ممالک کی فہرست میں ڈال دیا ہے ۔رہورٹ کے مطابق بھارت کے مسلم شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کےلئے مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر ذمہ دار قرار دیا گیا جس اس سے ان پر ہندو گروپوں کی جانب سے حملے بڑھ گئے۔اس مسلم دشمنی کی تازہ ترین بھارت کی مرکزی وزارت تعلیم کی جانب سے مدارس میں ہندوو¿ں کی مذہبی کتابیں رامائن اور گیتا کوبھی شامل نصاب کرنے کا فیصلہ ہے۔ مودی حکومت اگر مسلم مدارس میں گیتا اور رامائن پڑھانا چاہتی ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے پاٹھ شالوں میں بھی قرآن کی تعلیم شروع کروادے۔بھارت شخصیت پرستی، انتہا پسندی اور ہندو قوم پرستی کے راستے پر چلنے سے پہلے نازی جرمنی، روانڈا، میانمار اور سابقہ یوگوسلاویہ کے انجام پر غور کرے جو ان کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوئے۔