کسی کو شادی بیاہ کی دعوت موبائل ایس ایم ایس پر دی جائے تو اکثر حضرات کو ناقابلِ قبول ہوتی ہے ۔مگر کچھ پیارے جن کا دل بڑ ا ہوتا ہے وہ ایک دن پہلے بھی سب باتوں کو اگنور کر کے ولیمے پر حاضری دینے پہنچ جاتے ہیں۔ا ن کو کوئی ناراضی نہیں ہوتی ۔ مگر کچھ پیارے فرمان جاری کرتے ہیں کہ مجھے موبائل میسج پر دعوت کیوں دی گئی۔ میں ایسی شادیوں میں شرکت نہیں کرتا۔ مانا کہ چلو ایس ایم ایس نہ سہی فون کرلینا تو برا نہیں۔ اس پر کتنے پیسے خرچ آتے ہیں۔خود ہمیں ہمارے ایک عزیز نے ولیمے کی دعوت دوپہر کو فون پر دی ۔ کہا معافی چاہتا ہو ں مجھے بھولا ہوا تھا۔بھائی کی شادی ہے ۔ابوجان نے کہا تھاکہ آپ کو بتلادوں۔ میں نے کہا کب ہے پروگرام۔ فون پر آواز ابھری آج رات کو ہے۔ یہ سن کر میرے تو کانوں سے دھوئیں نکلنے لگے۔ سوچا اچھا اب ہم بھولنے والی چیز ہوگئے ۔ مگر مجال ہے کہ چہرے پر غصے کی سرخ دھاری چمکی ہو حرام ہو جو ماتھے پر بل آیاہو ۔ بڑے کھلے دل سے ان کو مبارکباد دی ۔یقین دلایا کہ ضرور حاضر ہو جا¶ں گا۔ اتنے شارٹ نوٹس میں کسی شادی میں بمعہ فیملی جانا آپ کو معلوم ہے کہ ہم جیسے درمیانے طبقہ کےلئے کتنا مشکل کام ہے ۔ وہاں شادی ہال میں پہنچے تو ان کے ابو جان خوش دلی سے ملے ۔ پوچھا کیوں ہماری بہو نہیں آئی ۔ خیر تو ہے ۔ اب میں کیا کہتا ۔ چپ رہنے میں عافیت سمجھی ۔ کیونکہ دوسروں کی خوشی کو غارت کرنا سنگ دل لوگوں کا کام ہے ۔ ایسے مواقع گلہ گزاری کے نہیں ہوتے۔ دوسروں کی خوشیوں کو زیادہ کرنا چاہئے ۔ایسا نہیں کہ شر ڈال کر پرائی خوشی میں زہر گھول دیں۔ہم نے کہا ان کی طبیعت اچانک ناساز ہوگئی تھی۔ لہٰذا میں اکیلے ہی چلا آیا۔ اب کیا کہوں کہ ہمارے ہاں تو شادیوں کی تیاری میں خواتین مہینہ پہلے تیاریاں کرتی ہیں۔تین گھنٹے پہلے کسی کو دعوت دینا ان کےلئے کس قدر مشکل ہو سکتا ہے۔ خود ہمارا بھی اس قلیل مدتی بلاوے میں شادی اٹینڈ کرنا دشوار تھا۔ مگر بعض شخصیات او رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ ہر طرح وہاں پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔اب میں ان فون پر ہی گلے شکوے شروع کردیتاتو اپنی ہی نظروں سے گر جاتا۔ یہ کہنا کہ آپ نے اتنے کم وقت میں بمعہ اہل وعیال دعوت دی ۔دوسرے کا بھرم رکھیں تو باری تعالیٰ آپ کا بھرم رکھے گا۔قربان جا¶ں ان پیارو ں کے جن کو میں نے بھی ایک ایس ایم ایس پر ہنگامی حالت میں ایک ولیمے کو رات ہونے سے پہلے بوقتِ دوپہر اطلاع دی ۔ وہ تقریب میں پہنچے ۔الٹا شرمندہ ہی کردیا۔ مگر بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ ایسے دل و جگر بھی ہیں جو اس موقع پر طویل طور پر ناراض ہو جاتے ہیں۔شادی میں شرکت بھی نہیں کرتے پھرآئندہ دو ایک سال کےلئے رابطہ بھی کاٹ لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں مجھ کو دعوت کےلئے فون کیوں کیا ۔ کیا خود شادی کارڈ دینے نہیں آ سکتے تھے۔اصل میں فی زمانہ آدمی کے پاس وقت نہیں رہا ۔ مصروفیات روز بروز زیادہ ہو رہی ہیں۔ ایک عام آدمی ہے تو وہ بھی مصروف ہے ۔دوسرے کی مجبوری کو دیکھنا چاہئے ۔ معافی کا جذبہ دل میں موجیں مارتا ہو۔ اگر اس موقع پر اگلے سے غلطی ہو تو کشادہ دل لوگ جان بوجھ کرآنکھیں موندلیتے ہیں ۔تاثر دیتے ہیں جیسے انھیں اس غلطی پر کوئی دکھ نہیں ہوا۔ تکلیف تو ہوتی ہے مگر زندگی ہے اس کو گذارنا بہت مشکل ہے ۔اگر مشکل سے نہ گذاری جائے تو زندگی بندے کو جلدی میں خود گذار دیتی ہے ۔کیالڑنا کیا جھگڑنا ۔آج مرے کل دوسرا دن۔ اتنی سی زندگی ہے ۔ جو محبت کرنے کےلئے بھی ناکافی ترین ہے ۔حیرانی ہوتی ہے کہ اس مختصر زندگی میں اگلا نفرت کےلئے کیسے وقت نکال پاتاہے ۔چلو موبائل پر ایس ایم ایس ہی سہی دعوت تو دے دی ۔ بعض حضرات تو بہت قریب ہو کر ایسے موقع پر اتنی دوری دکھلاتے ہیں کہ اپنی خوشیوں میں سرے سے بلاتے ہی نہیں۔ بعد میں حقائق سامنے آتے ہیں کہ چونکہ شارٹ پروگرام تھا اس لئے دعوت نہ دی۔ ایسی صورتِ حال سے تو ہزار درجہ اچھا ہے کہ پروگرا م سے چند گھنٹے پہلے ہی سہی چلو برقی مراسلہ بھیج کر بلایا تو سہی ۔ ۔ہمارے ہاں شادی بیاہوں میں دعوتی رقعے دینے کے معاملے میں بہت زیادہ مسائل ہیں ۔ مجھے خود آکر کارڈ دیتے میرے بھائی کو کیوں دیا کہ مجھے پہنچا دے ۔اب ایک آدمی کے ہاں شادی ہے تو عام طور سے ایسا ہو جاتاہے ۔آدمی چشم پوشی سے کام لے دوسرے کی مجبوری کو سمجھے ۔ اس میں بہت بھلائی ہے حالانکہ یہی لوگ ہیں کہ جب ایمرجنسی میں یا کوئی میت ہو جائے تو ایک موبائل میسج پر جنازہ گاہ پہنچ جاتے ہیں۔بلکہ ایک کو ایس ایم ایس ملے تو وہ خود آگے بہتوں کو فارورڈ کر دیتا ہے ۔جب میتوں پر نظر انداز کردینے کی اس کیفیت کو بندہ سمجھے تو شادی بیاہ بھی انسانوں ہی کے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی نظر انداز کرنا کچھ برا کام تو نہیں۔ اگر وقت پر دعوت نہیں ملی ۔ ٹھیک ہے کہ ” گلہ بھی ان سے کرتے ہیں محبت جن سے ہوتی ہے “۔لیکن پھر بھی انسان کی بڑائی اس میں ہے کہ اپنی نیکیاں اور دوسروں کی زیادتیاں بھول جائے۔