کورونا کی لہر اور ہم ہیں دوستو۔۔۔۔

بتلا دینے میں کیا شرمانا کہ مجھے کورنا ہے ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ زیادہ تر کو اگر یہ عالمی وائرس آن پکڑے تو وہ دوسروںکو اس بابت باخبر ہونے نہیں دیتے گیدرنگ میں جائیں گے دوسروں کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے مگر نہیں بتائیں گے یہ اچھا رویہ نہیں ایک عزیز کو کسی اور بیماری میں ہسپتال میں داخل کروایا گیاان کے رشتہ دار وں نے ان کو فون وغیرہ کئے وہ بیماری کے علاج کے بعد گھر لوٹ آئے ایک دوست نے ان کو فون کیا کہ میں آپ کو دیکھنے آ رہاہوں اس پر مریض نے جواب دیا ازراہِ کرم آپ تشریف نہ لائیں میں اب صحت یاب ہو چکا ہوں اس پر دوست خفا ہوگئے پھر کافی عرصہ ناراضگی رہی مریض نے مہینہ بھر کے بعد ان کو فون کیا کہ کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں تو دوست نے جواب دیا ہاں میں آپ سے ناراض ہوں مریض نے کہا دراصل بات کچھ اور ہے جب آپ فون کر کے آ رہے تھے اس وقت نہ صرف مجھ کو بلکہ میری زوجہ کو بھی کورونا تھا اس لئے ہم نے آپ کی صحت کو سامنے رکھ کر آپ کو اس بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا اس لئے تو ہم نے آپ کو آنے روک دیا کتنوں کو کورونا کی شکایت ہے مگر وہ چپ سادھ لیتے ہیں ملتے جلتے ہیں کسی کو بتلاتے نہیں اگر آپ گیدرنگ میں نہ جائیں تو آپ اکیلے کی وجہ سے جو ڈھائی تین سو آدمیوں کو کورنا ہونے جا رہا ہے وہ نہیں ہوگا ویسے بھی ان دنوں تو کورونا کے ترچھے وار بہت خطرناک ہوئے جاتے ہیںبلکہ کورونا کی ہر شخص کے حوالے سے الگ قسم سامنے آ رہی ہے کسی کو کچھ علاما ت ہیں اور کسی اور کو کوئی اور نشانیاں معلوم ہو رہی ہیںپھر اب یوکے وائرس کے نام سے کورونا کی نئی قسم بھی دریافت ہوئی ہے جو زیادہ مہلک ہے لیکن اس کے باوجود کہ بازار ویران ہیں عوام کا انداز نرالا ہے وہ کورونا کے ضمن میں دی گئی ہدایات پر عمل نہیں کرتے خوب دبنگ انداز میں ہاتھ ملاتے ہیں گلے ملتے ہیں اگر ان سے ہاتھ نہ ملائیں تو حیران ہوتے ہیں پوچھتے ہیں کہ کیا آپ بھی کورونا کی بیماری پریقین کرتے ہیںپھر کسی کے ساتھ ہاتھ کے بجائے بازو آگے کردو تو ایک آدمی نے پوچھا کیا آپ کے ہاتھ پر فالج وغیرہ کا حملہ ہوا اس موقع پر سوائے ہنس کر بات کو اڑا دینے کے اور کیا تدبیر ہو سکتی ہے اب تک کہ ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے عوام کواس وبا کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں کو ئی اس کی نفی کرتا ہے اور کوئی اس کو سچ قرار دیتا ہے۔ جب بیماری ہے تو بس ہے اس میں احتیاط تو ضرور کرنا چاہئے پھر جو لوگ قرینطین کی تنہائی اختیار کر لیتے ہیں ان کو نفسیاتی طور پر تنہا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس مریض کو تو پھر کوئی فون بھی نہیں کرتا جیسے یہ کووڈ فون کی تاروں کے راستے ان کے منہ اور ناک میں گھس جائے گا اور سگنل گھسیٹ کر کورونا کو فون کرنے والے کے پاس پہنچا دیں گے قرنطین میں تنہا دوست رشتہ دار کے ساتھ وٹس ایپ پررابطہ کرنا چاہئے کیونکہ اس کو زندہ در گور بھی تو نہیں کیا جاسکتا ہمارے بھائی بند ہیں اور دوسری طرف کورونا سے لاپروا ہیں مجھے لوگوں پر حیرانی ہوتی ہے پوچھیں کورونا کی کیا صورت حال ہے تو جھٹ جواب دیتے ہیں اجی جھوٹ ہے سب ایک دوست سے پوچھا سنا ہے اسلام آباد میں کورونا نے دنگل سجا رکھا ہے تو انھوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں یہ ٹی وی پرچرچے ہیں حقیقت میں صورت حال مختلف ہیں پھر میںنے پوچھا وہاں ماسک وغیرہ کی پابندی کی جاتی ہے لیکن اس بات کو بھی انھوں نے ہوا میں اڑا دیامگر جن کوکوروناہو جاتا ہے وہ تو تصدیق شدہ طور پر اس وائرس کے قائل ہو جاتے ہیں پھر وہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتے پائے جاتے ہیں اب تو معاملہ اتنا سخت ہو چکا ہے کہ ہاں اور ناں تک بات پہنچ چکی ہے کہا گیا ہے کہ اگر آپ زندگی کو کوروناکے عہد سے پہلے کی گہما گہمی پر واپس لانا چاہتے ہیں تو کورونا کی ویکسین لگوائیں ورنہ آپ کو کورنا نے گھیرلینا ہے شروع میں یہ بھی کہا گیا کہ جو کورونا کا ٹیسٹ نہیں کروائے گا اسے گرفتار کیا جائے گا ٹی وی سکرین پر دیکھتے کہ پولیس کی نفری کے ہمراہ سڑکوں پر راہ چلتے لوگوں کو روک کر ان کا ٹیسٹ زبردستی کرتے تھے مگر اب کے معاملہ حالانکہ بہت زیادہ خرابی کا شکار ہے مگر سرکار کی توجہ وہ نہیں رہی اب تو ہم لوگ کورونا کے عادی ہو چکے ہیں یہ ہمارے ساتھ آگے تک جائے گا کوروناکے ساتھ ہمیں کافی سال اور گذارنا ہوں گے کیونکہ آنے والے دنوں میں اس کو باقاعدہ ایک معمول کی بیماری کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔