افعانستان میں مستقبل کے آئین اور سیاسی بندوبست پر افغان گروہ غور و فکر کررہے ہیں۔ امید ہے وہ جلد یا بدیر معاہدہ کرلیں گے لیکن یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہو اور خانہ جنگی تک نوبت نہ پہنچے۔افغان معاہدے کی وسعت اور جامعیت کے ساتھ اس پر عمل درآمد کےلئے اقوام متحدہ کی امن فوج کا بندوبست بھی انتہائی ضروری ہے ورنہ اس معاہدے کا انجام بھی 1988 کے جنیوا معاہدے 1992 کے پشاور معاہدے اور 1993 کے اسلام آباد معاہدے کا ہوگا جو خانہ جنگی نہ روک سکے۔آئندہ کے افغان معاہدے اور سیاسی نظام میں کافی وسعت ہونی چاہئے۔ اس میں سب افغان گروہوں جیسے طالبان، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، حزب وحدت، جمعیت اسلامی، کابل حکومت اور جنگجوﺅں کا مخالف افغان اشرافیہ، جنگجو کمانڈرز، خواتین، نسلی گروہ جیسے تاجک اور ازبک وغیرہ سب کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔پہلے تو ان سب کو مذاکرات کی میز پہ بٹھایا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر آخری بندوبست میں ان کی نمائندگی اور مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ مثلاً گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی افغانستان میں بڑی پیروی رکھتی ہے اور اس کے پاس جنگ کا وسیع تجربہ اور افرادی قوت بھی ہے تو یہ یا دیگر تنظیمیں کسی بھی آئندہ بندوبست کو غیر مستحکم کرسکتی ہیںاسلئے افغانستان میں مذاکرات کار ضروری عہدے تخلیق کرکے ان کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائیں۔افغانستان میں انتخابات کا موجودہ نظام واحد ناقابل انتقال ووٹ پر مبنی ہے۔ جس میں ایک حلقے میں ایک ہی امیدوار چنا جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مثلاً ملک کے ہر حلقے میں زیادہ ووٹ لینے والا کامیاب ہوجاتا ہے اور اس سے چند ہی ووٹ کم لینے والا ناکام۔ یہ نظام وہاں زیادہ نقصان دیتا ہے جہاں کئی گروہ کسی ایک حلقے میں مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ نظام افغانستان کےلئے بالکل موزوں نہیں ہے جو ہے تو کثیر قومیتی ملک لیکن ہر قوم کسی خاص خطے میں رہتی ہے۔ ماسکو کانفرنس کے اعلامیہ میں بتادیا گیا ہے کہ ہم امارت اسلامی افغانستان کی بحالی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ افغان حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔ چناچہ سب کو ایک دوسرے کی رائے، نظریات اور ترجیحات بارے مفاہمت کا جذبہ اور احترام دکھانا چاہئے۔ افغانستان مختلف نسلی، لسانی، ثقافتوں اور نظریات کا ملک ہے۔ یک رنگی یہاں ممکن نہیں۔ پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنائے بغیر امن و استحکام ناممکن ہے۔ افغانستان میں مرکزیت کا تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ بڑے عرصے سے خود افغان حکومتیں، پھر سویت یونین اور اب پچھلے بیس سال سے مغربی اتحاد افغانستان کو کابل سے کنٹرول کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مرکز مضبوط، محفوظ اور خوشحال ہوگا تو یہی ثمرات نچلی مقامی سطح پر بھی نظر آئینگے مگر یہ ماڈل ناکام ہوگیا۔ افغانستان کے دیہات میں خود انحصاری اور خودمختاری کا جذبہ عرصے سے موجود رہا ہے۔ وہ اپنے مسائل جرگہ نظام کے ذریعے حل کرتے ہیں جس میں مقامی علماء، کمانڈر، ملک وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ وہ کسی بالاتر قوت سے، چاہے مرکزی حکومت ہو یا کوئی اور ان سے صرف حفاظت، انصاف اور تعلیم و صحت کی سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ اس کےلئے آئندہ سیاسی بندوبست میں ان مقامی گروہوں کو مرکزی حکومت کی سرپرستی، رسمی حیثیت، احترام اور مناسب آزادی دینا اور ان کے مفادات کا تحفظ بڑا مفید ہوگا۔اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ کوئی ایک نسلی گروہ مثلاً پختون، ازبک یا تاجک اپنا اتحاد بناکر حکومتی عہدے اور وسائل اپنے گروہ اور علاقے کی طرف منتقل نہ کردیں اور باقی گروہوں اور علاقوں کو محروم کردیں۔ اس کےلئے باہمی ویٹو کا کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔ جیسے عراق میں اور شمالی آئرلینڈ میں دیا گیا۔ وفاقی سطح پر ملک کے کسی صوبے یا قومیت کو متاثر کرنے والی قانون سازی کےلئے نہ صرف وفاقی پارلیمان میں اس صوبے یا قومیت کے منتخب ارکان کی سادہ یا دوتہائی اکثریت بلکہ اس صوبے کی اسمبلی کی سادہ یا دوتہائی اکثریت سے منظوری بھی لازمی ہونی چاہئے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کےلئے بھی یہ بندوبست ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے این ایف سی یعنی قومی مالیاتی کمیشن اور قومی اقتصادی کونسل جیسے ادارے قائم کیے جانے چاہئیں جہاں افغانستان کی قیادت مل بیٹھ کر ذمہ داریوں اور وسائل کی تقسیم کے فیصلے کرسکیں۔ صوبوں کو مناسب مقامی خودمختاری بھی دی جائے لیکن مرکزی حکومت کے ساتھ صوبوں کا تعلق ایسا ہو کہ دونوں اہم پالیسی امور پر ایک دوسرے کی مدد کے محتاج بھی ہوں۔ ضرورت اور تعاون پر مبنی یہ تعلق مرکزی حکومت کو بالادست رکھے گا لیکن ساتھ ہی اسے بعض امور پر صوبوں کے تعاون کا محتاج بھی بنائے گا۔ اس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتیں دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھنے پر مجبور ہوں گی۔آئندہ کے سیاسی نظام میں وسعت اور جامعیت کے ساتھ ساتھ بیرونی ضامنوں کا معاہدے کی تعمیل یقینی بنانے کا عزم بھی ضروری ہے۔ اس لیے امریکہ، روس، چین، جرمنی اور اقوام متحدہ وغیرہ کو معاہدے پر عمل درآمد کا ضامن بنایا جائے۔ عراق میں امریکہ نے شراکت اقتدار پر عمل درآمد کو کماحقہ توجہ نہیں دی تھی۔ یہ غلطی یہاں نہیں ہونی چاہئے۔ جب معاہدہ ہوجائے تو اس پر عمل درآمد ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کےلئے اقوام متحدہ کی امن فوج قائم کی جائے جو افغانستان میں معاہدے کے بعد موجود رہے اور معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائے۔امریکہ اور اقوام متحدہ نے 2014 اور 2019 کے افغان انتخابات کے بعد مصالحت نہ کی ہوتی تو افغان صدر اور نائب صدر کے درمیان تنازعہ حل نہ ہوسکتا۔ یہ عزم مستقبل کے افغان معاہدے پر عمل درآمد، سیاسی نظام کی حفاظت اور افغانستان کی اقتصادی ترقی اور آبادکاری کےلئے جاری رہنا چاہیے۔افغانستان کی خودمختاری اور افغان عوام کی حقِ حکومت سازی کا احترام ضروری ہے۔ افغانستان بہت تباہی دیکھ چکا جس کی وجہ بیرونی جارحیت، اندرونی سازشیں اور عدم برداشت ہیں۔ اب اس کے مستقبل کے نظام میں وسیع شرکت، اختیارات کی تقسیم، قانون کی حکمرانی، امن و استحکام، باقاعدہ شفاف انتخابات، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور سب کو یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔