کورونا وبا سے بچاو¿ کےلئے حکومت کو ملنے والی امدادی ویکسین کی ابتدائی کھیپ پہلے مرحلے میں صف اوّل (فرنٹ لائن) کے طبی عملے (ہیلتھ ورکرز) اور ساٹھ سال سے زائد عمر والے افراد کو مفت دی جا رہی ہے جبکہ نجی دوا ساز اداروں کے ذریعے فروخت کی اجازت ملنے کے بعد اطلاعات ہیں کہ ویکسین کی درآمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تاہم اِس کی غیرمعمولی طور پر زیادہ قیمت سمجھ سے بالاتر ہے! ابتدا میں حکومت نے درآمدکنندگان کو ویکسین کی قیمت کا ازخود تعین کرنے کی اجازت دی تاہم عوامی ردعمل کے بعد قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری حکومتی ادارے کو سونپ دی گئی ہے اور ”ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)“ کی جانب سے روسی ویکسین سپٹنک (Sputnik V) کی 2 خوراکوں کی قیمت 8449روپے رکھی گئی ہے جبکہ ایک خوراک پر مشتمل چین کی کونویڈیشیا ویکسین کی قیمت 4225روپے منظوری کےلئے وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی ہے لیکن درآمد کنندگان کو اعتراض ہے کہ انہوں نے مذکورہ دونوں ویکسینز زیادہ قیمت میں درآمد کی ہیں‘ جس کے بعد وفاقی کابینہ نے قیمتوں پر نظرثانی کی ہدایت کے ساتھ معاملہ ’ڈریپ‘ کو ارسال کر دیا ہے اور امکان ہے کہ نئی قیمت تجویز شدہ قیمتوں سے بھی زیادہ ہوگی۔ڈریپ کے مطابق عموماً درآمد کی جانے والی ادویات کی قیمتوں کا تعین ہمسایہ ممالک جیسا کہ بھارت و بنگلہ دیش میں قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے تاہم ہمسایہ ممالک میں کورونا ویکسینز کی قیمتوں سے متعلق معلومات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ویکسینز کی قیمتوں کا تعین 2018ءکے ڈریپ قوانین میں درج شدہ فارمولے کے تحت ہی کیا جائے گا جس کے مطابق تیار شدہ کورونا ویکسین کی حتمی قیمت کمپنی کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر آنے والی قیمت (لینڈنگ کوسٹ) جمع چالیس فیصد مارک اپ ریٹ یعنی منافع ہوگی جبکہ بڑے پیمانے پر درآمد اور مقامی طور پر پیک ہونے والی ویکسین کی قیمت کمپنی کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر آنے والی قیمت (لینڈنگ کوسٹ) جمع چالیس فیصد مارک اپ جمع اس کی پیکنگ پر آنے والی لاگت ہوگی۔ اس فارمولے کے تحت ڈریپ نے جو قیمتیں تجویز کی ہیں اس پر وفاقی کابینہ نے سمری پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیتے ہوئے ڈریپ کو روسی ویکسین سپٹنک کی قیمت پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ 10 امریکی ڈالرز (1565 پاکستانی روپے) قیمت والی روسی ویکسین کی قیمت 8449 روپے کیوں رکھی گئی ہے اور اِس قیمت پر بھی درآمد کنندگان خوش نہیں جو چاہتے ہیں اِس کی کم سے کم قیمت ’10 ہزار روپے‘ فی ویکسین سے زیادہ ہونی چاہئے یعنی ویکسین کی قیمت اور اخراجات لگا کر 2 ہزار روپے میں درآمد ہونے والی دوا دس ہزار روپے میں فروخت کی جائے۔ اگر 100 فیصد منافع بھی رکھا جائے جو کہ سراسر ناجائز ہے پھر بھی ویکسین کی قیمت ساڑھے تین سے چار ہزار روپے کے درمیان ہونی چاہئے پاکستان میں سپٹنک درآمد کرنے والی دوا ساز کمپنی ’اے جی پی‘ کے مطابق جب ڈریپ کی جانب سے ان سے قیمت کی تجویز مانگی گئی تھی تو انہوں نے اس کی قیمت تیس ڈالر دی تھی تاہم وقت کے ساتھ مارکیٹ میں سپٹنک کی مانگ میں اضافہ ہوا اور جب انہوں نے اسے درآمد کیا تو سپٹنک کی دو خوراکوں پر لاگت پینتالیس ڈالر آئی اور کمپنی اس قیمت پر یہ ویکسین درآمد کر چکی ہے جو کراچی کے سرد خانے میں محفوظ ہے۔ بیس ڈالر میں دستیاب سپٹنک کو 45ڈالر میں خریدنے کی سزا مریضوں کو دی جائے گی؟ اور یہی پاکستان میں ادویہ ساز اداروں کی حکمت عملی اور حکومت کا خاموش تماشائی جیسا کردار ہے جس کی بھاری قیمت مجبور اور لاچار مریضوں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔